قرآن کریم میں ائمہ (ع) کے نام ( حصّہ ہفتم )
پیغمبر اکرم نے بھی ”حدیث ثقلین“ کے مطابق اپنے اہل بیت اور عترت کا احکام اور تعلیمات اسلامی کے مطمئن ترین منابع اور مآخذ کے عنوان سے تعارف کرایا ہے ، اس سلسلہ میں ا مام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”کتاب اللہ فیہ نبا ما قبلکم و خبر ما بعدکم و فصل ما بینکم و نحن نعلمہ “ ۔ کتاب خدا میںماضی اور مستقبل کی خبریں ہیں اور وہ چیزیں جو موجود ہیں جن کے ذریعہ تم اپنے درمیان اختلاف کو حل کر سکو اور ہم ان سب کو جانتے ہیں (۳۰) ۔
اسلامی مختلف روایات سے اچھی طرح استفادہ ہوتا ہے کہ قرآن کا ظاہر بھی ہے اور باطن ہے ،اس کا ظاہر وہ معانی اور مفاہیم ہیں جو سب کی دسترس میں ہیں اور سب اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں ،لیکن باطن وہ معانی اور مفاہیم ہیں جو صرف پیغمبر اور معصوم راہنماوں کے اختیار میں ہیں (۳۱) ۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ خداوند عالم ، قرآن کریم میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ا طاعت کو اپنی اطاعت جانتا ہے اور اس نکتہ پر ۲۰ مرتبہ سے زیادہ تاکید کی ہے (۳۲) اور کہا ہے پیغمبر تمہارے لئے نمونہ عمل ہیں (۳۳) یعنی ہم ان کے اعمال، رفتار اور گفتار کی تائید کرتے ہیں ۔
اس کے علاوہ انسانوں کی ہدایت سے مربوط تمام مسائل چاہے وہ اہم ہوں یااہم نہ ہوں ، ایک جلد کتاب کے کتنے سو صفحوں پر آ سکتے ہیں ؟ حتما ضروری ہے کہ آسمانی متن کی تفسیر کے لئے آسمانی شخص کا تعارف کرایا جائے اور جب تک تعارف نہ کرایا جائے اس وقت تک دین کامل نہیں ہو گا ،لہذا قرآن کریم کی آخری آیت میں ”الیوم اکملت لکم دینکم“ کی بات نہیں ہوئی ؟ بلکہ جس وقت قرآن کریم کے ساتھ اس کے آسمانی مفسر کا تعارف کرا دیا اس وقت دین کے کام ہونے اور کفار کے ناامید ہونے کا ذکر کیا (۳۴) ۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا پیغمبر اکرم (ص) نے بھی اپنے وصی کے انتخاب کا اقدام کیا ہے ؟ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے رسالت کے آغاز ہی میں اپنی قوم کو انذار کرنے کے واقعہ میںاس مہم کی طرف قدم بڑھایا ہے جس کو خداوند عالم نے فرمایا ہے : ”وانذر عشیرتک الاقربین“ اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو ڈراو (۳۵) ۔ صحیح روایات اور اہل سنت کے بزرگ علماء کی شہادت کے مطابق پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اسی وقت حضرت علی (علیہ السلام) کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ”ھذا اخی و وصیی و خلیفتی من بعدی “ یہ میرے بعد میرے بھائی، میرے وصی اور میرے خلیفہ ہیں اور دوسری جگہوں پر متعدد روایات میں ائمہ کی تعداد بارہ بتائی ہیں : ”یکون بعدی اثنا عشرا امیرا کلھم من قریش “ (۳۶) ۔ یا ”اثناعشر کعدد نقباء بنی اسرائیل“ (۳۷) اور دوسری بعض روایات میں ائمہ اطہار (علیہم السلام) کی تعداد کے علاوہ ان کے ناموں کی تصریح کی ہے جو کہ فریقین کی کتابوں میں ذکر ہوئے ہیں مثلا جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل ہوا ہے ، جس وقت خداوند عالم نے اس آیت ”یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا اٴَطیعُوا اللَّہَ وَ اٴَطیعُوا الرَّسُولَ وَ اٴُولِی الْاٴَمْرِ مِنْکُمْ “ ۔ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو ، رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں ، کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر نازل کیا تو ہم نے آنحضرت (ص)سے کہا: یا رسول اللہ ہم نے خدا اور اس کے رسول کو تو پہچان لیا لیکن ا ولی الامر جن کی اطاعت کا خداوند عالم نے آپ کی اطاعت کے ساتھ حکم دیا ہے ،کون ہیں؟ فرمایا : اے جابر ! وہ میرے جانشین ہیں اور میرے بعد مسلمانوں کے امام ہیں جن میں سب سے پہلے علی بن ابی طالب اور پھر حسن ، ان کے بعد حسین ان کے بعد علی بن الحسین، ان کے بعد محمد بن علی ہیں جو توریت میں باقر کے نام سے مشہور ہیں اور تم بہت جلد ان سے ملاقات کرو گے ، جب تم ان سے ملاقات کرو تو ان کو میرا سلام کہنا ۔ ( جاری ہے )
متعلقہ تحریریں:
اھل بيت (ع) کے سلسلہ ميں نازل ھونے والي آيات
اھل بيت کے فضائل اور قرآن