فلسطيني مجلس قانون ساز کے رکن جمال نتشہ سے گفتگو ( حصّہ سوّم )
مرکز اطلاعات فلسطين: اسرائيل کا دعويٰ ہے اس نے قيديوں کو فوجي جنگي قيدي گيلاد شاليت کے بدلے ميں گرفتار کر رکھا ہے. بعض قيديوں کي رہائي صرف گيلاد شاليت کي رہائي کے ساتھ مشروط ہے. ايسے ميں قيدي کيا اميد رکھتے ہيں؟.
شيخ جمال نشتہ: يہ صحيح ہے کہ اسرائيلي جيلوں ميں قيد بہت سے قيدي اپني رہائي کے حوالے سے گيلاد شاليت کي رہائي سے اميديں وابستہ کئے ہوئے ہيں. ميں سجھتا ہوں کہ گيلاد شاليت کو فلسطيني قيديوں کي رہائي کے بدلے جلد ازجلد رہا کر دينا چاہيے.تاہم يہ بھي ايک حقيقت ہے کہ گيلاد کي رہائي ميں حماس نہيں خود اسرائيل رکاوٹ ہے. حماس کا موقف واضح ہے اور اس کي جانب سے قيديوں کےتبادلے کے ليے ايک معقول فہرست بھي اسرائيل کو فراہم کي گئي ہے تاہم اسرائيل خود ہي ہٹ دھرمي کا مظاہرہ کر رہا ہے. ايسي حالت ميں فلسطيني عوام اوربين الاقوامي برادري کو بھي قيديوں کے تبادلے کي ڈيل کو کامياب بنانے ميں اپنا کردار ادا کرنا چاہيے. اسيري ميں فلسطيني شہري ايک تکليف دہ اور موت کي زندگي سے گذار رہے ہيں ان کي زندگي ان کي صرف جيلوں سے رہائي ميں مضمر ہے. جتنا جلدي ممکن ہو اور جتنے قيديوں کو رہا کرايا جا سکتا ہو کيا جانا چاہيے.
مرکز اطلاعات فلسطين:.... غزہ کي پٹي اور مغربي کنارے ميں طويل عرصے سے ايک تقسيم کي کيفيت ہے. مغربي کنارے ميں مجلس قانون ساز کي کارروائي بھي معطل ہے. اس ساري صورت حال کو آپ کس نظرسے ديکھتے ہيں؟
شيخ جمال نشتہ:.... فلسطيني سياسي جماعتوں کے درميان موجود اختلافات اور مجلس قانون ساز کي کارروائي کي معطلي ايک نہايت افسوسناک صورت حال ہے. اگرچہ بڑي سياسي اور مذہبي جماعتوں ميں باہمي اختلافات ہيں تاہم ان اختلافات کي نوعيت بالکل سطحي ہے .ايسے گہرے اختلافات نہيں جو دور نہ کيے جا سکتے ہوں. ميں اس بات پريقين رکھتا ہوں کہ اگرتمام جماعتيں اپني موقف ميں معمولي سي لچک کا مظاہرہ کريں مفاہمت کو کامياب بنايا جا سکتا ہے. مصالحت کے سلسلے ميں پانچ امور پر اختلاف ہے اور باقي نکات طے پا چکے ہيں تاہم ان پانچ پربھي اتفاق رائے کوئي مشکل نہيں.
باہمي اختلافات کي وجہ سے مجلس قانون ساز کي آئيني کارروائي بھي متاثر ہو رہي ہے.اس وقت فلسطيني عوام کے مفاد ميں صرف يہ ہے کہ تمام جماعتيں اختلافات کو بالائے طاق رکھ کرقومي خدمت کے ليے متحد ہو جائيں اور مجلس قانون سازکو مغربي کنارے اور غزہ کي پٹي ميں ايک ساتھ چلائيں. ( جاري ہے )
متعلقہ تحریریں:
عراق و فلسطين اور اسلامي دنيا
ڈاکٹر موسي ابو مرزوق سے انٹرويو