• صارفین کی تعداد :
  • 12990
  • 1/10/2010
  • تاريخ :

امیرالمؤمنین علیہ السلام کے منتخب خطبات (23)

امیرالمؤمنین علیہ السلام

جس میں فقراء کو زہد اور سرمایہ داروں کو شفقت کی ہدایت دی گئی ہے  ۔

ہر شخص کے مقسوم میں جو کم یا زیادہ ہوتا ہے ، اسے لے کر فرمان قضا آسمان سے زمین پر اس طرح اترتے ہیں جس طرح بارش کے قطرات لٰہذا اگر کوئی شخص اپنے کسی بھائی کے اہل و مال و نفس میں فراوانی و وُسعت پائے تو یہ چیز اس کے لئے کبیدگی خاطر کا سبب نہ بنے۔ جب تک کوئی مرد مسلمان کسی ایسی ذلیل حرکت کا مرتکب نہیں ہوتا کہ جو ظاہر ہو جائے، تو اس کے تذکرہ سے اسے آنکھیں نیچی کرنا پڑیں اور جس سے ذلیل آدمیوں کی جراٴت بڑھے ۔ وہ اس کامیاب جواری کے مانند ہے جو جوئے کے تیروں کا پانسہ پھینک کر پہلے مرحلے پر ہی ایسی جیت کا متوقع ہوتا ہے ، جس سے اسے فائدہ حاصل ہو اور پہلے نقصان ہو بھی چکا ہے ، تو وہُ دور ہو جائے ۔ اسی طرح وہ مسلمان بد دیانتی سے پاک دامن ہو، وہ اچھائیوں میں سے ایک کا منتظر رہتا ہے ۔ یا اللہ کی طرف سے بلاوا آئے تو اس شکل میں اللہ کے یہاں کی نعمتیں ہی اس کے لئے بہتر ہیں اور یا للہ تعالیٰ کی طرف سے (دنیا کی ) نعمتیں حاصل ہوں تو ا س صورت میں اس کے مال بھی ہے اور اولاد بھی اور پھر اس کا دین اور عزتِ نفس بھی برقرار رہے۔ بیشک مال و اولاد دنیا کی کھیتی اور عمل صالح آخرت کی کشتِ زار ہے اور بعض لوگوں کے لئے اللہ ان دونوں چیزوں کو یکجا کر دیتا ہے ۔ جتنا اللہ نے ڈرایا ہے اتنا اس سے ڈرتے رہو اور اتنا اس سے خوف کھاؤ کہ تمہیں عذر نہ کرنا پڑے ۔ عمل بے ریا کرو اس لئے کہ جو شخص کسی اور کے لئے عمل کرتا ہے ۔ اللہ اس کو اسی کے حوالہ کر دیتا ہے ہم اللہ سے شہیدوں کی منزلت نیکوں کی ہمدمی اور انبیاء کی رفاقت کا سوال کرتے ہیں۔

اے لوگو! کوئی شخص بھی اگرچہ وہ مالدار ہو اپنے قبیلہ والوں اور اس امر سے کہ وہ اپنے ہاتھوں اور زبانوں سے اس حمایت کریں بے نیاز نہیں ہو سکتا اور وہی لوگ سب سے زیادہ اس کے پشت پناہ اوراس کی پریشانیوں کو دور کرنے والے اور مصیبت پڑنے کی صورت میں اس پر شفیق و مہربان ہوتے ہیں۔ اللہ جس شخص کا سچا ذکرِ خیر لوگوں میں برقرار رکھتا ہے ۔ تو یہ اس مال سے کہیں بہتر ہے ۔ جس کا وہ دوسروں کو وارث بنا جاتا ہے ۔

اسی خطبہ کا ایک جزیہ ہے ۔

دیکھو تم میں سے اگر کوئی شخص اپنے قریبیوں کو فقر و فاقہ میں پائے تو ان کی احتیاج کو اس امداد سے دُور کرنے میں پہلو تہی نہ کرے جس کے روکنے سے یہ کچھ بڑھ نہ جائے گا اور صرف کرنے سے اس میں کچھ کمی نہ ہو گی۔ جو شخص اپنے قبیلے کی اعانت سے ہاتھ روک لیتا ہے ۔ تو اس کا تو ایک ہاتھ رکتا ہے لیکن وقت پڑنے پر بہت سے ہاتھ اس کی مدد سے رُک جاتے ہیں جو شخص نرم خو ہو وہ اپنی قوم کی محبت ہمیشہ باقی رکھ سکتا ہے شریف رضی فرماتے ہیں کہ یہاں پر غفیرة کے معنی کثرت و زیادتی کے ہیں اور یہ عربوں کے قول الجم الغفیر اور الجماء الغفیر (اژدہام) سے ماخوذ ہے اور بعض روایتوں میں غفیرہ کے بجائے عفوہ ہے اور عفوہ کسی شے کے عمدہ اور منتخب حصہ کو کہتے ہیں۔ یوں کہا جاتا ہے اکلت عفو ة الطعام یعنی میں نے منتخب اور عمدہ کھانا کھایا ۔ ومن یقبض یدہ عن عشیرتہ (تا آخر کلام) کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس جملہ کے معنی کتے حسین و دلکش ہیں ۔ حضرت کی مراد یہ ہے کہ جو شخص اپنے قبیلہ سے حُسنِ سلوک نہیں کرتا س نے ایک ہی ہاتھ کی منفعت کو روکا۔ لیکن جب ان کی امداد کی ضرورت پڑے گی ۔ اور ان کی ہمدردی و اعانت کے لیے لاچار و مضطر ہو گا تو وہ ان سے بہت سے بڑھنے والے ہاتھوں اور اٹھنے والے قدموں کی ہمدردریوں اور چارہ سازیوں سے محروم ہو جائے گا۔

پیشکش : شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان


متعلقہ تحریریں:

امیرالمؤمنین علیہ السلام کے منتخب خطبات (19)

امیرالمؤمنین علیہ السلام کے منتخب خطبات (18)