صفحه اصلی تبیان
شبکه اجتماعی
مشاوره
آموزش
فیلم
صوت
تصاویر
حوزه
کتابخانه
دانلود
وبلاگ
فروشگاه اینترنتی
منگل 26 نومبر 2024
فارسي
العربیة
اردو
Türkçe
Русский
English
Français
تعارفی نام :
پاسورڈ :
تلاش کریں :
:::
اسلام
قرآن کریم
صحیفه سجادیه
نهج البلاغه
مفاتیح الجنان
انقلاب ایران
مسلمان خاندان
رساله علماء
سروسز
صحت و تندرستی
مناسبتیں
آڈیو ویڈیو
اصلی صفحہ
>
اردو ادب و ثقافت
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
شعر العجم تنقيد عالي کا بہتر سے بہتر نمونہ ہے
مہدی حسن کی راۓ میں شعر العجم تنقید عالی کا بہتر سے بہتر نمونہ ہے بلکہ انہیں اصرار ہے کہ صرف اردو لٹریچر میں نہیں بلکہ مشرق کی کسی زبان میں اس پایہ کی تصنیف موجود نہیں
شبلي کے اسلوب بيان کا ايک وصف بے ساختگي ہے
شبلی کے اسلوب بیان کا ایک وصف بے ساختگی بھی ہے مگر یہ بے ساختگی سرسید اور حالی کی تحریروں کی بےساختگی سے مختلف ہے ۔
شبلي کا اسلوب بيان
شبلی کے اسلوب کی نمایان صفت اس کی وہ قوت اور جوش بیان ہے جو ان کے احساس کمال اور احساس عظمت کی پیداوار ہے۔
شبلي کي سوانح نگاري کي خصوصيات
شبلی کی سوانح عمریوں کے چند کمزوریوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
سوانح مولانا روم
سوانح مولانا روم کا بڑا مقصد یہی ہے کہ مولانا روم کو حکیم کی میشیت سے اور ان کی مثنوی کو عقائد اور کلام کی حیثیت سے پیش کیا جاۓ ۔
الغزالي (1902 ء)
الغزالی کا ایک اہم مرکزی موضوع یہ ہے کہ غزالی کو کن اثرات نے امام غزالی بنایا۔ احقاق حق کے فطری جوہر کے علاوہ زندگی کے واقعات اور تجربات نے امام صاحب کو تحقیق کا دلدادہ بنایا جس کی وجہ سے وہ عمر بھر حقیقت کی جستجو میں رہے۔
شبلی کا تصور سوانح نگاری
یورپ میں سوانح عمری کے فن کو 18 ویں ، 19 ویں صدی میں جو ترقی ہوئی اس کے اصول شبلی سے پوشیدہ نہ تھے اس زمانے کے باقی سوانح نگاروں کی طرح وہ ان اصولوں پر پورا عمل نہیں کر سکے۔
اردو ميں ت، ۃ اور ط کو کس طرح لکهنا ہے؟
ہم تنوین کے سلسلے میں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے اصول کو اپنا چکے ہیں کہ اردو کے حروفِ تہجی میں تائے مُدَوَّرہ نام کی کوئی چیز نہیں۔
فيض احمد فيض کو رخصت ہوئے 28 برس ہوگئے
فیض کے کلام میں قوموں کی آزادی اور ترقی کی بات نظر آتی ہے اور خصوصاً نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے لیے ولولہ انگیزی کا پیغام دیتی ہے۔
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا / نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ کیا
یعنی رقیب بوالہوس کی ہوس کو نشاط کا رو لطف وصل نگار حاصل ہے اب ہمارے جینے کا مزہ کیا رہا ، مصنف کی اصطلاح میں ہوس محبت رقیب کا نام ہے ، اسی غزل میں آگے کہتے ہیں
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا / اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
یعنی مرجانا ہی بہتر ہوا ۔
دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا / زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا
پہلے مصرع میں ’ کیا ‘ تحقیر کے لئے ہے اور دوسرے مصرع میں استفہام انکاری کے لئے ، یعنی میرے ناخن کاٹنے سے کیا فائدہ ، کیا پھر بڑھ نہ آئیں گے ۔
شب خمارِ شوق ساقی رست خیز انداز تھا / تامحیط بادہ صورت خانۂ خمیازہ تھا
یعنی رات کو میرے شوق نے قیامت برپا کر رکھی تھی اور شوق میں بے لطفی و بے مزگی جو تھی اس وجہ سے اُسے خمار سے تشبیہ دی اور کہتا ہے
بسکہ دُشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا / آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
یعنی کمالِ انسانیت کے مرتبہ پر پہنچنا سہل نہیں ہے ۔
ظفر کي شاعري ميں منظر نگاري کا بھي حسنِ امتزاج ہے
ظفر کی شاعری میں منظر نگاری کا بھی حسنِ امتزاج ہے اور اس سلسلے میں بھی ان کے قوتِ متخیلہ کی داد دینی پڑتی ہے۔
سر سيّد اور گاۆں کي ياد
دلی سے سات کوس مغل پور ایک جاٹوں کا گاوں ہے۔ وہاں سر سید کے والد کی کچھ ملک بطور معافی کے تھی۔
اردو ميں الف ممدوده اور تنوين کو کس طرح لکهنا ہے؟
الف ممدودہ کا مسئلہ صرف مرکّبات میں پیدا ہوتا ہے۔ یعنی دل آرام لکھا جائے یا دلارام۔ ایسی صورت میں اصول یہ ہونا چاہیے کہ معیاری تلفّظ کو رہنما بنایا جائے اور مرکّب جیسے بولا جاتا ہو، ویسے ہی لکھا جائے۔
ظفر کي شاعري کي سنگلاخ زمينوں کي سطح کو توڑنے ميں پسينہ پسينہ ہو جاتے ہيں
ظفر کی شاعری پر بات کرتے وقت اکثر یہ ہوتا ہے کہ ہم ان کی سنگلاخ زمینوں کی سطح کو توڑنے میں پسینہ پسینہ ہو جاتے ہیں اور اس مشکل کام کو ظفر کی مشکل پسندی کا نام دے دیتے ہیں۔
سراپا رہن عشق و ناگزیر الفت ہستی/ عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کیا
اس شعر میں عشق کو برق اور ہستی و خرمن سے تشبیہ دی ہے کہتے ہیں رہن عشق بھی ہوں اور جان بھی عزیز ہے میری دہائی ہے
بسم اللہ کي تقريب
مجھ کو اپنی بسم اللہ کی تقریب بخوبی یاد ہے۔ سہ پہر کا وقت تھا اور آدمی کثرت سے جمع تھے ، خصوصاً حضرت شاہ غلام علی صاحب بھی تشریف رکھتے تھے مجھ کو لا کر حضرت کے سامنے بٹھا دیا تھا۔
اردو ميں الف کو کس طرح لکهنا ہے؟
عربی کے کچھ لفظوں کے آخر میں جہاں الف کی آواز ہے، وہاں بجائے الف کے ی لکھی جاتی ہے اور اس پر چھوٹا الف (الف مقصورہ) نشان کے طور پر بنا دیا جاتا ہے۔
بہادر شاہ ظفر اور 1857
شاعری خود ادب ہے اور ادب کا بڑا حصّہ شاعری ہے شاعری کی تعریف مغرب تا مشرق خوب ہوئے لیکن کل ملا کر شاعری کا معاملہ آج بھی وہیں ہے
سر سيد کے بچپن کے حالات
سر سید کے والد میر متقی۔۔۔ ایک نہایت آزاد منش آدمی تھے۔ خصوصاً جب سے شاہ غلام علی صاحب کے مرید ہو گئے تھے
ہوں ترے وعدہ نہ کرنے میں بھی راضی کہ کبھی / گوش منت کش گل بانگ تسلی نہ ہوا
یعنی اگر تو وعدۂ وصل کرتا تو جب بھی میں خوش تھا ، اس وجہ سے کہ وہ عین مقصود ہے اور تو نے وعدہ نہیں کیا تو اس پر بھی میں خوش ہوں کہ احسان سے بچا اور اُس احسان سے جو کبھی نہیں اُٹھایا تھا ۔
دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا / ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا
یعنی لوگ جو دُنیا میں وفا کرتے ہیں ، اس کے معنی یہی ہیں کہ تسلی چاہتے ہیں ، جب وفا کرکے تسلی نہ ہوئی تو فقط وفا بے معنی و مہمل رہ گیا ، حاصل یہ کہ وفاداریٔ عشاق بے معنی بات ہے ۔
شمار سبحہ مرغوب بتِ مشکل پسند آیا / تماشائے بیک کف بردنِ صد دل پسند آیا
مرغوب آیا ، یعنی مرغوب ہوا ، مشکل پسند بت کی صفت ہے محض قافیہ کے لئے حاصل اس شعر کا یہ ہے کہ اُسے ایک ہتھے میں سو سو دل عاشقوں کے لے لینا پسند ہے
دھمکی میں مرگیا جو نہ باب نبرد تھا /عشق نبرد پیشہ طلب گار مرد تھا
باب نبرد یعنی لائق نبرد مطلب یہ ہے کہ جو شخص مرد میدانِ عشق نہ تھا وہ اس کی دھمکی ہی میں مرگیا ، میر ممنون کے کلام میں باب ان معنی پر بہت جگہ آیا ہے ۔
دل مرا سوزِ نہاں سے بے محابا جل گيا /آتش خاموش کے مانند گویا جل گیا
یعنی چپکے چپکے کس طرح جلا کیا کہ کسی کو خبر نہ ہوئی ، ’ گویا ‘ کا لفظ خاموش کی مناسبت سے ہے ، ’ مانند ‘ کا لفظ بول چال میں نہیں ہے ، مگر شعراء نظم کیا کرتے ہیں ۔
کہتے ہو نہ ديں گے ہم دل اگر پڑا پايا / دل کہاں کہ گم کیجئے ہم نے مدعا پایا
یعنی تمہاری چتون یہ کہہ رہی ہے کہ تیرا دل کہیں پڑا پائیں گے تو پھر ہم نہ دیں گے ، یہاں دل ہی نہیں ہے جسے ہم کھوئیں اور تمہیں پڑا ہوا مل جائے ، مگر اس لگاوٹ سے ہم سمجھ گئے دل تمہارے ہی پاس ہے ۔
جراحت تحفہ الماس ارمغاں داغِ جگر ہديہ /مبارکباد اسد غم خوارِ جانِ دردمند آیا
مشہور ہے کہ الماس کے کھالینے سے دل و جگر زخمی ہو جاتے ہیں تو جو شخص کہ زخم دل و جگر کا شائق ہے ، الماس اُس کے لئے ارمغاں ہے ، یہ سارا شعر مبارکبادی کا مضمون ہے
نقش فريادي ہے کس کي شوخي تحرير کا /کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
مصنف مرحوم ایک خط میں خود اس مطلع کے معنی بیان کرتے ہیں کہتے ہیں ، ایران میں رسم ہے کہ داد خواہ کاغذ کے کپڑے پہن کر حاکم کے سامنے جاتا ہے ، جیسے مشعل دن کو جلانا یا خون آلودہ کپڑا بانس پر لٹکا لے جانا ، پس شاعر خیال کرتا ہے
سودا ايک غزل گو شاعرکي حيثيت سے
کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا/ ساغر کو میرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں
نظم طباطبائي کا ايک تعارف
جناب نظم طباطبائی کی عظیم المرتبت اور بھاری بھر کم شخصیت دنیائے ادب اور خاص کر اہل حیدرآباد کیلئے محتاج تعارف نہیں ہے ۔
حضرت امام زمان(عج) کے مدح ميں
آجا تیرے بغیر یہ جینا حرام ہے/ تجھ پر خدا کا لاکھوں درود و سلام ہے
اقبال کا ذہني و فکري ارتقاء
اقبال کی شاعری پر اظہار خیال کرنے والے مفکرین اس بات پر متفق ہیں کہ ان کی شاعری کا آغاز اسی وقت وہ گیا جب وہ ابھی سکول کے طالب علم تھے اس سلسلے میں شیخ عبدالقادر کہتے ہیں، ” جب وہ سکول میں پڑھتے تھے اس وقت سے ہی ان کی زبان سے کلام موزوں نکلنے لگا تھا۔
سعادت حسن خان منٹو کے سوویں سالگرے کی مناسبت پر خصوصی اشاعت
سعادت حسن منٹو کے والد غلام حسن منٹو قوم اور ذات کے کشمیری امرتسر کے ایک محلے کوچہ وکیلاں میں ایک بڑے خاندان کے ساتھ رہتے تھے۔
نہ ہو گا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا / حبابِ موجۂ رفتار ہے نقشِ قدم میرا
ذوق سے صحرا نوردی مراد ہے اور رفتار کو موج اور نقش قدم کو حباب کے ساتھ تشبیہ دینے سے مطلب یہ ہے کہ جس طرح موج کا ذوق روانی کبھی کم نہیں ہوتا اسی طرح میرا بھی ذوق کم نہیں ہو گا
سالے منٹو بننا چاہتے ہيں!
بہت شکریہ کہ تم نے مجھے ایک سوویں سالگرہ پر یاد رکھا۔کچھ دیر پہلے ہی افتخار عارف یہ بتانے آیا تھا کہ اس نے حکومتِ پاکستان کو تحریری سفارش کی ہے کہ مجھے بھلے دیں نہ دیں مگر وصی شاہ، صالح ظافر اور سعادت حسن منٹو کو ضرور لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نواز دیں۔
منٹو کي قبرکہاں اور کس حال ميں
برس قبل منٹو کی قبر کس طرح تلاش کی گئی، اسکا احوال آپ سن چکے ہیں۔ لیکں سن 2005 میں بھی اُس کی قبر کی تلاش ایک مسئلہ بن سکتی ہے، یہ کبھی سوچا نہ تھا۔واقعات آج بھی کچھ اُسی طرح کے تھے
منٹو کي پہلي کہاني
بیس برس کی عمر تک پہنچنے پر تین بار میٹرک میں فیل ہو چکنے کے بعد سعادت حسن منٹو چوتھی کوشش میں کامیاب رہے اور سن 31 ء میں میٹرک کا امتحان پاس کر لیا۔
منٹو: نصف صدي کا قصہ
لاہور کے ہم پانچ نوجوانوں کے لیے 1967 کا سال دو وجوہات کی بنا پر بڑا اہم تھا۔ ایک تو اس برس سوویت انقلاب کی گولڈن جوبلی منائی جا رہی تھی
منٹو کو گئے آدھي صدي بيت گئي
سعادت حسن منٹو کو ہم سے جدا ہوئے پچاس برس پورے ہو چکے ہیں پاکستان میں اُن کی پچاس سالہ برسی پر کئی شہروں میں تقریبات منعقد ہو چکی ہیں
ستائش گر ہے زائد اس قدر جس باغ رضواں کا / وہ اک گلدستہ ہے ہم بے خودوں کے طاق نسیاں کا
کسی شئے کو طاق پر رکھنا یا بالائے طاق رکھ دینا محاورہ ہے اس کا خیال ترک کر دینے کے معنی پر اور طاق نسیاں پر رکھنا اور بھی زیادہ مبالغہ ہے
منٹو اور شلوار
حالانکہ میرے معزز جج ساتھیوں نے تمہیں کالی شلوار کے مقدمے میں بری کردیا لیکن ایک سوال جو مقدمے کے دوران تم سے پوچھنا چاہیئے تھا وہ یہ تھا کہ منٹو میاں آپ بار بار شلوار میں کیوں گھستے ہیں۔
منٹو اور خدا
منٹو میاں، ہم تو ٹھہرے جج، ہمارا تو کام ہی تم جیسے ادبی تخریب کاروں کی گوشمالی کرنا ہے۔ تم کٹہرے میں، ہم کرسی پر، تو ظاہر ہے ہماری تمہاری دشمنی تو سمجھ میں آتی ہے۔
منٹو کي تحريريں تنگ نظر معاشرے کا ردعمل
میری تحریریں آپکو کڑوی اور کسیلی تو لگتی ہوں گی مگر جو مٹھاس آج آپ کو پیش کی جارہی ہے اس سے انسانیت کو کیا فائدہ ہوا ہے۔ نیم کے پتے کڑوے سہی مگر خون تو صاف کرتے ہیں۔
وطنیت
اس دور میں مے اور ہے، جام اور ہے جم اور/ ساقی نے بنا کی روش لطف و ستم اور
ترانۂ ملی
چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا/ مسلم ہیں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
پھول کا تحفہ عطا ہونے پر
وہ مست ناز جو گلشن میں جا نکلتی ہے/ کلی کلی کی زباں سے دعا نکلتی ہے
تضمین بر شعر انیسی شاملو
ہمیشہ صورت باد سحر آوارہ رہتا ہوں/ محبت میں ہے منزل سے بھی خوشتر جادہ پیمائی
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
اصلی صفحہ
ہمارے بارے میں
رابطہ کریں
آپ کی راۓ
سائٹ کا نقشہ
صارفین کی تعداد
کل تعداد
آن لائن