• صارفین کی تعداد :
  • 1274
  • 7/7/2012
  • تاريخ :

سودا ايک غزل گو شاعرکي حيثيت سے

سودا

اردو قصيدہ نگاري ميں جو منفرد اور بلند مقام سودا کو حاصل ہوا وہ کسي اور کے حصے ميں نہيں آيا

 کيفيت چشم اس کي مجھے ياد ہے سودا

ساغر کو ميرے ہاتھ سے لينا کہ چلا ميں

ايک افغان تاجر کا بيٹا،جمع تفريق کے ماحول ميں تخيل کے گھوڑے دوڑاتا اور بقول آتش مرصع سازي ميں نام پيدا کرتا ہے- اردو قصيدہ نگاري ميں جو منفرد اور بلند مقام سودا کو حاصل ہوا وہ کسي اور کے حصے ميں نہيں آيا-سوداکي طبيت اور مزاج سے يہ صنف گہري مناسبت رکھتي تھي،تمام نقادوں نے ان کي قصيدہ نگاري کو سراہا ہے-

سودا ايک قادرالکلام شاعر تھے انہوں نے غزل بھي کہي اور اس ميں ان کا مقام سطحي اور معمولي نہيں ہے،وہ چونکہ ايک امير گھرانے سے تعلق رکھتے تھے سو زندگي عيش و طرب ميں گزرتي تھي اميروں کي صحبتيں ميسر تھيں اس ليے کسي کے عشق جانگداز ميں مير کي طرح آنسو نہيں بہائے،ان کے کلام ميں سوزوگداز،درد،غم کي گہري ٹيسيں اور خستگي تو نہيں جو مير کي غزلوں کا خاصا ہے  اس کے باوجود سودا کي غزل جاندار ہے-

سودا جو ترا حال ہے اتنا تو نہيں وہ

کيا جانيئے تو نے اسے کس آن ميں ديکھا

سودا نے مروجہ شعري رنگوں کو کاميابي سے نبھايا ہے،سنگلاخ زمينوں ميں شعر کہنا، مشکل قافيوں اور رديفوں کو باندھنا ، صنائع بدائع کا فنکارانہ استعمال ان کي غزلوں ميں عام ہے،شوکت الفاظ و خيال،لہجے کي بلند آہنگي جيسي قصيدے کي خصوصيات ان کي غزلوں کو منفرد بناتي ہيں،ان کے ہاں عشق و محبت ،ہجر و وصال اور داخليت کا حسين امتزاج ملتا ہے -

جس روز کسي اور پے بيداد کرو گے

يہ ياد رہے ہم کو بہت ياد کرو گے

------

دل کے ٹکڑوں کو بغل بيچ ليے پھرتا ہوں

کچھ علاج اس کا بھي اے شيشہ گراں ہے کہ نہيں

-----

عشق سے تو نہيں ہوںميں واقف

دل کو شعلہ سا کچھ لپٹتا ہے

سودا کا نام مرزا محمد رفيع اور سودا تخلص تھا ،ان کے والد کابل سے تجارت کي غرض سے دہلي آئے اور يہيں کے ہو رہے-کاروبار کافي اچھا تھا اسي ليے فارغ البالي کي زندگي بسر کي-شاعري کا ذوق فطري تھا ،شروع شروع ميں فارسي ميں طبع آزمائي کي مگر جلد ہي اردو کي طرف متوجہ ہو گئے-سودا نے پہلے پہل سليمان قلي خان سے اصلاح لي بعد ميں شاہ حاتم کے شاگرد ہوئے پھر خان آرزو کي صحبت سے بھي فائدہ اٹھايا، کئي بادشاہوں اور رؤسا کے ہاں ان کا آنا جانا تھا خوب قدرو منزلت بھي ہوتي تھي-

احمد شاہ ابدالي اور مرہٹوں کے حملوں سے دہلي تباہ ہو گئي تو سودا فرخ آباد ميں نواب خان رند کے پاس چلے گئے چار سال بعد لکھنؤ ميں آصف الدولہ کے ہاں منتقل ہو گئے ان کي زندگي ابتدا سے آخر تک با فراغت بسر ہوئي ،لکھنؤ ميں چھ ہزار سالانہ وظيفہ مقرر تھا -

قصيدے ،مرثيے ،مثنوياں،رباعياں،شہر آشوب،قطعات،تاريخيں،پہيلياں،واسوخت،مستزاد،ہجو-کليات اور غزليں سب اصناف سودا کے ہاں موجود ہيں،فارسي نثر ميں ايک رسالہ ’’تنبيہ الغافلين‘‘لکھا،ايک فارسي ديوان بھي يادگار ہے-

سودا  نے 27 جون 1781ء کو تقريباً70 برس کي عمر ميں  وفات پائي-

تجھ قيد سے دل ہو کر آزاد بہت رويا

لذت کو اسيري کي کر ياد بہت رويا


متعلقہ تحریریں:

سعادت حسن خان منٹو کے سوويں سالگرے کي مناسبت پر خصوصي اشاعت