• صارفین کی تعداد :
  • 1645
  • 7/9/2012
  • تاريخ :

شمار سبحہ مرغوب بتِ مشکل پسند آيا

تماشائے بيک کف بردنِ  صد دل پسند آيا

مرزا غالب دہلوی

شمار سبحہ مرغوب بتِ مشکل پسند آيا

تماشائے بيک کف بردنِ  صد دل پسند آيا

مرغوب آيا ، يعني مرغوب ہوا ، مشکل پسند بت کي صفت ہے محض قافيہ کے لئے حاصل اس شعر کا يہ ہے کہ اُسے ايک ہتھے ميں سو سو دل عاشقوں کے لے لينا پسند ہے ، پھر اس سو دل کي ايک تسبيح بھي مصنف نے بنائي ہے اور کہتے ہيں کہ گويا اُسے تسبيح کا شمار بہت مرغوب ہے اور يہ بھي احتمال ہے کہ مصنف نے بيک کف بردن صد دل ميں حساب عقد انامل کي طرف اشارہ کيا ہے اور عقدِ صد کي يہ شکل ہے کہ چھنگليا کي سر کو انگوٹھے کي جڑ ميں لگاکر انگوٹھا سارا اُس کي پشت پر جماديتے ہيں ، عرب ميں اس حساب کا رواج تھا ، رسولِ  خدا انے جس حديث ميں فتنۂ چنگيز و ہلاکو و تيمور وغيرہ کي زينب بنت جحش ط“سے پيشين گوئي کي ہے ، اس ميں ذکر ہے  :  حضرت ايک دن ڈرے ہوئے ان کے پاس آئے اور فرمايا  :  ’’ لا الہ الا الله ويل للعرب من شرقد اقترب فتح اليوم من روم ، ياجوج وماجوج مثل ہذہ ‘‘ يہ کہہ کر آپ نے کلمہ کي اُنگلي کو انگوٹھے سے ملاکر حلقہ بنايا ذہيب اور سفيان بن عيينہ نے اس حديث کو روايت کرکے عقدِ تسعين کي شکل دونوں اُنگليوں سے بنائي ، يعني کلمہ کي اُنگلي کا سر انگوٹھے کي جڑ ميں سے لگاکر انگوٹھے کو اس کي پشت پر جماديا ، فتنۂ تاتار سے کئي سو برس پيشتر کي کتابوں ميں بخاري وغيرہ کي يہ حديث موجود ہے ، خوارزم شاہ نے جب ديوارِ  ترکستان کو کھدوا ڈالا جب ہي سے چنگيز و ہلاکو و تيمور کو ملي اور سلطنت عرب کو تباہ کرڈالا ، اُس زمانہ ميں شاہ خوارزم قطب الدين سلجوقي تھے -

بفيض بے دلي نوميدي جاويد آساں ہے

کشائش کو ہمارا عقدۂ مشکل پسند آيا

يعني دُنيا کي طرف سے جو بے دلي و بے دماغي ہم کو ہے اس کي بدولت صدمہ نوميدي و ياس کا اُٹھا لينا ہم کو سہل ہے ، ہميں دُنيا پر خود رغبت نہيں ہے ، کشود کار کي اُميد ہو تو کيا اور نا اُميدي ہو جائے تو کيا - يہ پہلے مصرع کے معني ہوئے اور دوسرے مصرع کا مطلب يہ ہے کہ ہمارا عقدۂ مشکل کشائش کو پسند آگيا ، يعني اب کبھي اس کي کشائش نہ ہو گي ، اس سبب سے کہ کشائش کو اس کا عقدہ ہي رہنا پسند ہے اور پسند اس سبب سے ہے کہ ہميں پرواہ نہيں ، پھر ايسي       بے نيازي کشائش کو کيوں نہ پسند آئے -

ہوائے سير گل آئينۂ بے مہري قاتل

کہ اندازِ  بخوں غلطيدن بسمل پسند آيا

يعني اسے تماشائے گل کي خواہش ہونا اُس کي بے مہري کا آئينہ ہے اور اس کي جفاجوئي کي دليل ہے ، اس وجہ سے کہ گل ميں بسمل بخوں غلطيدہ کا انداز ہے ، پہلے مصرع ميں سے فعل محذوف ہے -

پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

جراحت تحفہ الماس ارمغاں داغِ  جگر ہديہ/ مبارکباد اسد غم خوارِ  جانِ  دردمند آيا