• صارفین کی تعداد :
  • 1547
  • 12/2/2012
  • تاريخ :

فيض احمد فيض کو رخصت ہوئے 28 برس ہوگئے

فیض احمد فیض

فيض کے کلام ميں قوموں کي آزادي اور ترقي کي بات نظر آتي ہے اور خصوصاً نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے ليے ولولہ انگيزي کا پيغام ديتي ہے-

اردو کے شہرہ آفاق شاعر فيض احمد فيض کو دنيا سے رخصت ہوئے 28 برس ہوچلے ہيں- ان کا انتقال 20 نومبر 1984ء کو 73 برس کي عمر ميں ہوا-

ان کي شاعري جہان ايک طرف خاص و عام ميں بے حد مقبول ہے وہيں انقلابات کا ذکر اور جا بجا اميد وبيم کے تذکرے پڑھنے والوں ميں ايک نيا ولولہ پيدا کرتے ہيں-

فيض احمد فيض معاشي و معاشرتي عدم مساوات، شخصي آزادي و انساني حقوق کے علمبردار تھے- ليکن بائيں بازو کے نظريات کے حامي ہونے اور آمرانہ سوچ کے خلاف لکھنے پر انھيں بہت سي صعوبتوں کا سامنا بھي کرنا پڑا-

فيض کي شاعري کے بارے ميں معروف دانشور اور کالم نگار کشور ناہيد کہتي ہيں کہ ان کے کلام ميں قوموں کي آزادي اور ترقي کي بات ملتي ہے اور خصوصاً نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے ليے ولولہ انگيزي کا پيغام ديتي ہے-

’’ان کےکلام نے ہميں زندگي ميں وہ محبت دي ہے، وہ شعور ديا ہے کہ جس کے توسط ہم آگے بڑھ کے وہ کام کرسکتے ہيں جو کام قوموں کو اٹھا کر اوپر لے کر آتا ہے-‘‘

کشور ناہيد نے وائس آف امريکہ سے گفتگو ميں بتايا کہ فيض احمد فيض کہا کرتے تھے کہ جو کچھ اُن کے زمانے ميں ہوتا رہا وہ آئندہ بھي ہوتا رہے گا مگر وہ سمجھتي ہيں في زمانہ جو حالات ہيں وہ پہلے کي نسبت اور دگرگوں ہوچکے ہيں-

’’نہ ان کے زمانے ميں خودکش حملے تھے، نہ بندوقوں سے آتے جاتے لوگوں کو مارا جاتا تھا، نہ عورتوں پر تيزاب سے حملے ہوتے تھے، نہ غيرت کے نام پر قتل ہوا کرتے تھے، اگر يہ سب کچھ ہو رہا ہوتا تو يہ بھي فيض کي شاعري ميں آپ کو ملتا-‘‘

فيض احمد فيض نے اپنے وقت ميں نہ صرف ملکي بلکہ عالمي حالات سے بھي متاثر ہو کر بے شمار نظميں کہيں- انقلاب چين، افريقہ کي صورتحال، مشرق وسطيٰ خصوصاً فلسطين کا ذکر بھي ان کے ہاں ملتا ہے-

فيض احمد فيض پہلے ايشيائي شاعر تھے جنہيں روس کا لينن امن ايوارڈ سے نوازا گيا-

فيض کي برسي کے موقع پر منگل کو ملک ميں سماجي و ادبي تنظيموں کي طرف سے مختلف تقاريت کا اہتمام بھي کيا گيا-

فيض کي شاعري في زمانہ بھي تازہ معلوم ہوتي ہے اور ان کي برسي پر ان ہي کا ايک شعر ياد آرہا ہے-

کر رہا تھا غم جہاں کا حساب

آج تم ياد بے حساب آئے


متعلقہ تحريريں:

شب خمارِ  شوق ساقي رست خيز انداز تھا/ تامحيط بادہ صورت خانۂ خميازہ تھا