الغزالي (1902 ء)
شبلي کا تصور سوانح نگاري
الغزالي کا ايک اہم مرکزي موضوع يہ ہے کہ غزالي کو کن اثرات نے امام غزالي بنايا- احقاق حق کے فطري جوہر کے علاوہ زندگي کے واقعات اور تجربات نے امام صاحب کو تحقيق کا دلدادہ بنايا جس کي وجہ سے وہ عمر بھر حقيقت کي جستجو ميں رہے-
شبلي نے يہ بھي ثابت کيا ہے کہ "امام صاحب کے کمالات ميں فلسفہ کا بہت بڑا حصہ ہے-" اس کے علاوہ تصوف نے بھي حضرت امام کي ذہني اور روحاني تعمير و تکميل ميں بڑا حصہ ليا-
الغزالي حقيقت ميں فلسفہ کو مقبول عام بنانے کي ايک عملي کوشش ہے اور اس کا شبلي نے صاف صاف اعلان بھي کيا ہے - چنانچہ امام صاحب کي تصانيف ميں سے صرف انہيں کتابوں کي طرف خاص توجہ کي ہے جن ميں عقليات کے مباحث ہيں - شبلي نے يہ طريقہ اس ليۓ اختيار کيا کہ " ملک کا مذاق اوراس کي حالت بھي اس بات کي مقتصي ہے کہ فلفسہ آميز علوم کے مسائل قوم کے سامنے پيش کيۓ جائيں " ( الغزالي - صفحہ 58 ) اس سے مقصود يہ بھي تھا کہ فلسفے کے متعلق جو بدگماني طبقہ علماء ميں پائي جاتي ہے وہ رفع ہو - يہ اس بدگماني کے زير اثر تھا کہ حضرت امام کي فلسفہ و عقليات کي کتابيں مشرقي کتب خانوں ميں بہت کم ہيں - اسي طرح وہ کتابيں بھي کم ياب ہيں جن ميں انہوں نے اجتہاد اور آزادي راۓ سے کام ليا ہے - شبلي کي غرض يہ ہے کہ اس وقت قوم کا مذاق فلسفہ اور عقليات کي طرف مائل ہے اور اجتہاد اور آزادي راۓ کو پھر اہميت حاصل ہو رہي ہے - اس ليۓ الغزالي کي طرز کي کتابوں کي ملک کو ضرورت ہے -
شبلي اپنے مقصد ميں کامياب ہوۓ - " الغزالي " کے ذريعے انہوں نے جن رحجانات کي ہمت افزائي کي ہے وہ يہ ہيں : علماء کي اندروني خرابيوں کي اصلاح ، حکام اور سلاطين کے سامنے آزادي اور حق گوئي کي اہميت ، تمدن اور سوسائٹي کي تہذيب کي ضرورت ، اجتہاد اور آزادي راۓ کي اہميت ، يورپ کي علمي خدمات اور علماۓ يورپ کا تعصب مسلمانوں کے متعلق وغيرہ -
" الغزالي " ايک عمدہ علمي کتاب ہے مگر اپني سوانح عمري نہيں - اس ميں حضرت امام کے ذہني کارناموں پر خاص توجہ کي گئي ہے مگر جزئيات زندگي کم ہيں اور شخصيت کي تصوير نامکمل ہے - اس کي فضا گھٹي ہوئي اور " بند " سي ہے - سوانح نگار کا قلم کچھ رک رک کر چل رہا ہے - شايد حيدرآبار کا ماحول اس کا ذمہ دار ہے -
شعبہ تحریر و پیشکش تبیان