• صارفین کی تعداد :
  • 1550
  • 8/11/2012
  • تاريخ :

بہادر شاہ ظفر اور 1857  

بہادر شاہ ظفر

شاعري خود ادب ہے اور ادب کا بڑا حصّہ شاعري ہے شاعري کي تعريف مغرب تا مشرق خوب ہوئے ليکن کل ملا کر شاعري کا معاملہ آج بھي وہيں ہے کہ بقول شبلي :

’’جو جذبات الفاظ کے ذريعہ ادا ہوں شعر ہے‘‘

نہ جانے حضرت انسان کے سر ميں يہ سودا کب سمايا کہ وہ اپنے دلي جذبات کو مشتہر کرے ضرورتاً بھي اور بغير ضرورت کے بھي ليکن يہ ضرور ہوا کہ اس امر نے دنيا ميں آرٹ کي بنياد ڈالي دي- يہ بات تو مسلّم ہے کہ اس روئے زمين پر کامياب آرٹ کے جتنے بھي نادر نمونے ہيں وہ سب دلي جذبات کي عکاسي کرتے ہيں شاعري بھي آرٹ ہے اور اس ميں بھي کامياب شاعر وہي قرار پاتا ہے جو دلي جذبات کو بخوبي شعر کے قالب ميں ڈھال ديتا ہے- ملٹن نے شعر کي تعريف کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

’’شعر الفاظ کا ايسا استعمال ہے کہ اس سے تخيل دھوکہ کھا جائے- مصور رنگ کي مدد سے جو کام کرتا ہے اس کو الفاظ کے ذريعہ سر انجام دينے کي صنعت کا نام شاعري ہے‘‘

يہ مغربي مفکر کا خيال ہے ليکن فارسي ميں نظامي عروضي السمرقندي نے بھي شعر کي تعريف کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

’’شاعري ايسي صنعت ہے جس کي بدولت موہومات کي ترتيب سے چھوٹي چيز بڑي اور بڑي چيز چھوٹي کر کے دکھائي جاتي ہے اور اچھي چيز کو بد نما اور بري چيز کو خوش نما ثابت کيا جاتا ہے تاکہ انسان کے جذبات مشتعل ہوں اور طبيعت پر انبساط يا انقباض کي کيفيت طاري ہو اور يہ دنيا ميں مہتمم بالشان کارناموں کا سبب بنے- ‘‘     

(چہار مقالہ باب شاعري)

اپنے جذبات کو مشتہر کرنے سے دوسروں کے جذبات مشتعل ہوں اور اگر يہ کام قصداً کيا جائے تو ايسي شاعري بھي مقصديت کے زمرے ميں داخل ہو جائے گي-يقيناً بہادر شاہ ظفر اسي زمرے ميں شامل شاعر ہيں بھلے ہي ان کا تعلق کلاسيکي عہد سے رہا ہو غزل اور بہادر شاہ ظفر کا ذکر آتے ہي اٹھارھويں اور انيسويں صدي پر محيط ادبي منظر نامے کا عکس ذہن کے پردے پر تھرکنے لگتا ہے بالخصوص اٹھارھويں صدي کا نصف آخري اور 19ويں صدي کا نصف اول حصّہ جو بہادر شاہ ظفر کا عہد بھي ہے(پيدائش 14اکتوبر 1775اور وفات 7نومبر1862)يہ دور نہ يہ کہ اردو شاعري کا ايک اہم دور ہے بلکہ يہ وہ عہد ہے جس ميں سياسي، سماجي، ثقافتي اور تہذيبي سطح پر جتني تبديلياں ہندوستان ميں ہوئيں شايد ہي کسي دور کو ايسا انقلابي رويّہ ميسّر آ يا ہو-

کہا جاتا ہے کہ آرٹ زمانۂ سکون ميں پروان چڑھتا ہے ليکن حيرت ہوتي ہے کہ اردو شاعري کے بامِ عروج پر پہنچنے کا عہد نہايت ہي جاں سوز عہد ہے- ايسا عہد جس ميں ہر سطح پر تبديلياں ہو رہي ہيں- علمي ميدان ميں سائنس کا عمل دخل اسي عہد ميں بڑھ رہا ہے ہندوستان گير پيمانے پر انگريزوں کا تسلط اسي دور ميں قائم ہوا وطنيت کا جذبہ اسي دور ميں برگ و بار لايا غزل کے مقابلے ميں موضوعاتي نظموں کو انگريزوں کے ايما پر اسي دور ميں رواج ديا گيا، تجربے کے طور پر ہي سہي اودھ کے نواب کو اسي دور ميں گرفتار کيا گيا، مغليہ سلطنت کے آخري تاجدار بہادر شاہ ظفر کو اسي عہد ميں قيد کر کے رنگون بھيجا گيا اور اسي عہد ميں عام عوام ميں ايک زبردست سياسي تبديلي يہ بھي ديکھنے ميں آئي کہ ملک گير پيمانے پر انگريزوں کے خلاف احتجاج کے شعلوں نے ايک مسلح جدوجہد کي شکل اختيار کر لي جسے انگريزوں نے  1857کا غدر کہا- اور اس جدو جہد ميں پہلي بار اور شايد آخري بار بھي تمام ہندوستاني صرف اور صرف ہندوستاني بن گئے اور اسي جدو جہد نے يہ طے کر ديا کہ انگريزوں کو جلد يا دير ميں ہندوستان سے واپس جانا ہو گا-

تبديليوں کا يہ دور، جدو جہد کے يہ صبح و شام اور افراط و تفريط کے اس ماحول ميں بہادر شاہ کي شاعري پروان چڑھي-

تحرير: ڈاکٹر محمد يحيٰ صبا

پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

شمار سبحہ مرغوب بتِ مشکل پسند آيا/  تماشائے بيک کف بردنِ  صد دل پسند آيا