• صارفین کی تعداد :
  • 1744
  • 11/11/2012
  • تاريخ :

ہوس کو ہے نشاط کار کيا کيا

نہ ہو مرنا تو جينے کا مزہ کيا

مرزا اسد الله خان غالب

يہ نہ تھي ہماري قسمت کہ وصال يار ہوتا/ اگر اور جيتے رہتے يہي انتظار ہوتا

دوست غم خواري ميں ميري سعي فرمائيں گے کيا/ زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائيں گے کيا

شب خمارِ  شوق ساقي رست خيز انداز تھا/ تامحيط بادہ صورت خانۂ خميازہ تھا

بسکہ دُشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا/ آدمي کو بھي ميسر نہيں انساں ہونا

ہوس کو ہے نشاط کار کيا کيا

نہ ہو مرنا تو جينے کا مزہ کيا

يعني رقيب بوالہوس کي ہوس کو نشاط کا رو لطف وصل نگار حاصل ہے اب ہمارے جينے کا مزہ کيا  رہا ، مصنف کي اصطلاح ميں ہوس محبت رقيب کا نام ہے ، اسي غزل ميں آگے کہتے ہيں  :

ہوس کو پاس ناموس وفا کيا

   دوسرا پہلو يہ بھي ہے کہ دُنيا ميں انسان کو ہوا و ہوس سے رہائي نہيں ، اگر مرنا نہ ہوتا تو اس طرح کے جينے ميں کچھ مزا نہ تھا يعني حاصل زندگاني مرنا تھا -

تجاہل پيشگي سے مدعا کيا

کہاں تک اے سراپا ناز کيا کيا

يعني ميرا حال سن کر تم کب تک ’ کيا کيا ‘ کہہ کر ٹالوگے ، اس تجاہل شعاري سے آخر تمہارا کيا مطلب ہے -

نوازش ہائے بے جا ديکھتا ہوں

شکايت ہائے رنگيں کا گلا کيا

نوازش بے جا وہ جو رقيب پر ہو اور جب رقيب پر تم التفات کرو تو ميري شکايت سے کيوں برا مانو اور اُس کا گلہ کيوں کرو -

نگاہِ  بے محابا چاہتا ہوں

تغافل ہائے تمکيں آزما کيا

بے تکلف و بے حجاب ہوکر مجھ سے آنکھ چار کرو اور يہ تغافل صبر آزما کيسا يعني ميرا دل ديکھنے کے لئے اور ميرے ضبط آزمانے کے لئے يہ چشم پوشي کيسي -

فروغِ  شعلۂ خس اک نفس ہے

ہوس کو پاس ناموس وفا کيا

اس شعر ميں رقيب پر طعن ہے کہ اُسے عشق نہيں ہے ہوس ہے اس کي محبت شعلہ خس کي طرح بے ثبات ہے اُسے ناموس وفا کا پاس بھلا کہاں ، اُس کا فروغ عشق چار دن کي چاندني ہے -

نفس موج محيطِ بے خودي ہے

تغافل ہائے ساقي کا گلا کيا

يعني يہاں بے شراب پئے بے خودي ہے پھر بے التفاتي ساقي کا گلہ کرنا کيا ضرور ہے جسے اُس کي صورت ديکھ کر بے خودي ہو جائے اُسے وہ شراب نہ دے تو کيا شکايت -

دماغِ  عطر پيراہن نہيں ہے

غم آوارگي ہائے صبا کيا

صبا سے بوئے گل مراد ہے اس سبب سے کہ صبا ہي کے چلنے سے پھول کھلتے ہيں تو اُس ميں بوئے گل ملي ہوئي ہوتي ہے اور يہ ظاہر ہے کہ اگر صبا آوارہ و پريشان نہ ہوتي تو سب پھولوں کي خوشبو ايک ہي جگہ جمع ہو جاتي ليکن شاعر کہتا ہے کہ مجھے پيراہن کے بسانے ہي کا دماغ نہيں ہے آوارہ مزاجي صبا کي کيا پروا ہے ہوس دُنيا نہ ہو اُسے بے وفائي دُنيا کا کيا غم ہے -

دل ہر قطرہ ہے ساز انا البحر

ہم اُس کے ہيں ہمارا پوچھنا کيا

يعني ہر قطرہ کو دريا کے ساتھ اتحاد کا دعويٰ ہے اسي طرح ہم کو بھي اپنے مبداء کے ساتھ عينيت کا دعويٰ ہے وہ دريا ہے اور ہم اسي دريا کے قطرہ ہيں اور قطرہ دريا ميں مل کر دريا ہو جاتا ہے -

محابا کيا ہے ميں ضامن ادھر ديکھ

شہيدانِ  نگہ کا خوں بہا کيا ؟

’ ادھر ديکھ ‘ دو معني رکھتا ہے ايک تو مقام تنبيہ ميں يہ کلمہ کہتے ہيں دوسرے يہ کہ تو ميري طرف ديکھ تو سہي اگر ميں شہيد نگاہ ہو جاۆں تو ذمہ کرتا ہوں کہ تجھے خون بہا نہ دينا پڑے گا -

سن اے غارت گر جنس وفا سن

شکست قيمت دل کي صدا کيا

يعني تو جو يہ کہتا ہے کہ ہميں شکست دل کي خبر نہيں تو کہيں شکست دل ميں آواز ہوتي ہے جو تجھے سنائي ديتي مصنف نے شکست دل کو شکست قيمت دل سے تعبير کيا ہے اور اسي لئے جنس و غارت اُس کے مناسبات ذکر کئے ہيں دوسرا پہلو اس بندش ميں يہ نکلتا ہے کہ شکستِ دل کي صدا تجھے اچھي معلوم ہوتي ہے تو دل شکني تو کئے جا اور سنے بھلا دل کي اور صدائے شکستِ دل کي کيا حقيقت ہے جو تو تامل کرے -

کيا کس نے جگر داري کا دعويٰ

شکيب خاطر عاشق بھلا کيا

يعني مجھے ہرگز يہ دعويٰ نہيں ہے کہ بے تمہارے مجھے چين نہ آئے گا -

يہ قاتل وعدۂ صبر آزما کيوں

يہ کافر فتنۂ طاقت رہا کيا

اسي وعدۂ صبر آزما کو دوسرے مصرع ميں فتنۂ طاقت ريا سے تعبير کيا ہے اس شعر ميں جس طرز کي بندش ہے مصنف کا خاص رنگ ہے اور اس ميں منفرد ہيں -

بلائے جاں ہے غالب اُس کي ہر بات

عبارت کيا اشارت کيا ادا کيا

’ کيا ‘ اس شعر ميں حرفِ عطف ہے جسے معطوف و معطوف عليہ ميں بيان مساوات کے لئے لاتے ہيں -

_______

در خور قہر و غضب جب کوئي ہم سا نہ ہوا

پھر غلط کيا ہے کہ ہم سا کوئي پيدا نہ ہو

يعني پھر ہمارا کہناکيا غلط ہے کہ ہم سا کوئي پيدا نہ ہوا اور ہمسا کوئي آفت زدہ نہ ہوا -

بندگي ميں بھي وہ آزاد و خودبيں ہيں کہ ہم

اُلٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا

يعني پھر کسي اور کي ہم کيوں اُٹھانے لگے -

سب کو مقبول ہے دعويٰ تري يکتائي کا

روبرو کوئي بت آئينہ سيما نہ ہوا

يعني کسي نے مقابلہ نہ کيا -

کم نہيں نازش ہم نامي چشم خوباں

تيرا بيمار برا کيا ہے گر اچھا نہ ہوا

يعني اگر ميں بيمار رہا تو چشم معشوق بھي تو بيمار ہے يہ ہم نامي کا فخر کيا کم ہے -

سينے کا داغ ہے وہ نالہ کہ لب تک نہ گيا

خاک کا رزق ہے وہ قطرہ کہ دريا نہ ہوا

يعني جس طرح کہ قطرہ خاک ميں جذب ہوکر ايک داغ خاک پر پيدا کرتا ہے اُسي طرح نالہ ضبط کرنے سے سينہ ميں داغ پڑجاتا ہے -

نام کا ميرے ہي جو دُکھ کہ کسي کو نہ ملا

کام ميں ميرے ہے جو فتنہ کہ برپا نہ ہوا

صاف ہے -

ہر بن مو سے دمِ  ذکر نہ ٹپکے خوناب

حمزہ کا قصہ ہوا عشق کا چرچا نہ ہوا

يعني يہ نہيں ممکن کہ خوناب نہ ٹپکے ، اس شعر ميں استفہام انکاري ہے کہ بھلا يہ ہوسکتا ہے کہ خوناب نہ ٹپکے -

قطرہ ميں دجلہ دکھائي نہ دے جزو کل ميں

کھيل لڑکوں کا ہوا ديدۂ بينا نہ ہوا

يعني عارف کي نظر کھيل تھوڑي ہے ؟ اس شعر کو بھي استفہام انکاري کے طرز سے پڑھنا چاہئے -

تھي خبر گرم کہ غالب کے اُڑيں گے پرزے

ديکھنے ہم بھي گئے تھے يہ تماشا نہ ہوا

اپني رُسوائي اور موردِ  تعذير ہونے کا اظہار ہے کہ لوگ اُسے تماشا سمجھے ہوئے ہيں -

پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان