منٹو اور شلوار
حالانکہ ميرے معزز جج ساتھيوں نے تمہيں کالي شلوار کے مقدمے ميں بري کرديا ليکن ايک سوال جو مقدمے کے دوران تم سے پوچھنا چاہيئے تھا وہ يہ تھا کہ منٹو مياں آپ بار بار شلوار ميں کيوں گھستے ہيں-
کالي شلوار کي مرکزي کردار سلطانہ اداس ہے- شايد اِس ليئے اُداس ہے کہ بڑے شہر ميں تنہا ہے- اپنا جسم بيچ کر زندہ ہے- بس اُسے ايک دھن ہے کہ کسي طرح ايک کالي شلوار مل جائے تو عزت سے عاشورہ تو ہو سکے-
منٹو مياں اگر آپ آج وہ کہاني لکھ رہے ہوتے تو سلطانہ اب بھي اداس ہوتي- اُسکي زندگي کو بڑے خطرے ہوتے کيونکہ عورت ذات ہے، اکيلي ہے، اوپر سے بيسوا ہے-
ليکن اس کو سب سے بڑا خطرہ اِس ليئے ہوتا کہ عاشورہ منانے کا شوق ہے اور کالي شلوار پہننے پر بھي مصُر ہے- کالي شلوار کا شوق ہي اس کے لئے جان ليوا ثابت ہوتا-
کچھ ايسے لوگ بھي اِس افسانے کو ثبوت کے طور پر پيش کرتے جنہيں افسانے پڑھنے يا لکھنے کا شوق نہيں ہے- وہ کہتے کہ ديکھا ہم نے جو پہلے ہي بتا ديا تھا کہ عاشورہ منانے والے سب (نعوذبااللہ) سلطانہ کي طرح کي رنڈياں ہيں- عاشورہ منانے والے کہتے کہ منٹو کو کروڑوں مومنين ميں صرف ايک بيسوا ہي نظر آئي-
ديکھو عدليہ تو فرقہ واريت کے چکر ميں پڑتي نہيں ہمارے پاس تو اگر کوئي پيش بھي کيا جاتا ہے تو ہم تو يہ ہي سمجھتے ہيں کہ اللہ کا کام ہي کر رہا ہے اور رہا کرديتے ہيں-
ہميں کالي شلوار پر جو اعتراض تھا وُہ نہ عاشورہ پہ تھا، نہ کالے رنگ پر- اگر عتراض تھا تو شلوار پہ تھا-
اب تمہيں کيا سمجھائيں تم خود پنجاب کے سپوت تھے تم نے اپني تحريروں ميں جب جب عورت کو سکرٹ، ساڑھي پہنائي ہم نے کہا يہ عورتيں تو ہيں ہي آوارہ کوئي يہودن، کوئي بنگالن، کوئي ہندو تو کوئي نورجہاں ليکن شلوار تو ہماري مائيں، بہنيں، بيٹياں پہنتي ہيں اب تم کالي سکرٹ کہہ ديتے، کالي ساڑھي يا کالا غرارہ بھي چل جاتا- کالي دھوتي بھي کہہ ديتے تو ہم سمجھتے کہ کوئي گاğ کي الہڑ دوشيزہ صراطِ مستقيم سے ہٹ گئي ہے- ليکن شلوار تو نہ صرف ہماري مائيں، بہنيں، بيٹياں بلکہ ہمارے ہمسايوں، ہمسايوں کے ہمسايوں کي بھي مائيں بہنيں، بيٹياں بھي پہنتي ہيں-
اب يہ کون چاہے گا کہ کہاني تو ايک بيسوا کي پڑھ رہا ہو اور ذہن ميں اپني ماوں بہنوں کي شلواريں لہرا رہي ہوں-
چلو مانا کہ تم کہتے ہو کہ تمہاري بيسوا سلطانہ ايک اُداس عورت ہے صبح سويرے ريل کي پٹريوں کو ديکھتي ہے پھر اپنے ہاتھوں کي لکيروں کو ديکھتي ہے اور سوچتي ہے کہ زندگي کي پٹڑي پر دھکا دے کر اُسے چھوڑ ديا گيا ہے- کانٹے کوئي اور بدل رہا ہے-
سلطانہ جو مرضي سوچ لے، رہے گي تو رنڈي ہي-
تم بار بار پوچھتے ہو کہ اس زندہ لاش کي کہاني کو کوئي فحش کيسے سمجھ سکتا ہے- کون ہے جو اس کہاني کو پڑھ کر سوچے گا کہ کہيں سے سلطانہ جيسي بيسوا ڈھونڈ کر لاتا ہوں- منٹو مياں دلوں کا حال تو وہ قادر مطلق ہي جانتا ہے ہم تو صرف اتنا جانتے ہيں کہ جب ہم سلطانہ کي کالي شلوار کے بارے ميں پڑھتے ہيں تو ہميں صرف اپني ماğ، بہنوں کي شلواريں ذہن ميں آتي ہے-
اور بات جب شلوار سے شروع ہو تو وہاں پر نہيں رکتي، ’ کھول دو‘ تک جا پہنچتي ہے-
تحریر: محمد حنیف
پیشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان