• صارفین کی تعداد :
  • 857
  • 11/11/2012
  • تاريخ :

شب خمارِ  شوق ساقي رست خيز انداز تھا

تامحيط بادہ صورت خانۂ خميازہ تھا

مرزا غالب دهلوي

بسکہ دُشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا/ آدمي کو بھي ميسر نہيں انساں ہونا

سراپا رہن عشق و ناگزير الفت ہستي/ عبادت برق کي کرتا ہوں اور افسوس حاصل کيا

ہوں ترے وعدہ نہ کرنے ميں بھي راضي کہ کبھي / گوش منت کش گل بانگ تسلي نہ ہوا

دہر ميں نقش وفا وجہ تسلي نہ ہوا / ہے يہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معني نہ ہوا

شب خمارِ  شوق ساقي رست خيز انداز تھا

تامحيط بادہ صورت خانۂ خميازہ تھا

يعني رات کو ميرے شوق نے قيامت برپا کر رکھي تھي اور شوق ميں بے لطفي و بے مزگي جو تھي اس وجہ سے اُسے خمار سے تشبيہ دي اور کہتا ہے کہ يہاں سے لے کر دريائے بادہ تک ميرے خميازہ کا صورت خانہ بنا ہوا تھا يعني ميں نے خمار ميں ايسي لمبي لمبي انگڑائياں ليں جن کي درازي محيط بادہ تک پہنچي ، غرض مصنف کي يہ ہے کہ انگڑائياں لينے ميں جو ہاتھ پاۆں پھيلتے تھے وہ گويا شراب کو ڈھونڈتے تھے -

يک قدم وحشت سے درس دفتر امکاں کھلا

جادہ اجزائے دوعالم دشت کا شيرازہ تھا

يک قدم وحشت سے وحشت کا مرتبہ ادنيٰ مقصود ہے اور اجزائے دو عالم دشت بمنزلہ اجزائے عالم ، عالم دشت يا اجزائے دو صد دشت ہے جس سے مراد کثرت ويراني ہے يعني ممکنات نے اپنے مبداء سے ايک ذراسي وحشت و مغائرت جو کي تو عالم امکان موجود ہو گيا اور اُس وحشت کا ايک قدم جس جادہ پر پڑا گويا وہ اوراق دو صد دشت کا شيرازہ تھا اس سبب سے کہ وحشت ميں جب قدم اُٹھے گا دشت ہي کي طرف اُٹھے گا اور عارف کي نظر ميں تمام عالم امکان ويران ہے- دو عالم دشت کي ترکيب ميں مصنف نے دشت کي مقدار کا پيمانہ عالم کو بتايا ہے جس طرح ماندگي کي مقدار کا پيمانہ بيابان کو اور تامل کي مقدار کا پيمانہ زانو کو اور آرزو کا پيمانہ شہر کو قرار ديا ہے -

مانع وحشت خرامي ہائے ليليٰ کون ہے

خانۂ مجنونِ  صحرا گرد بے دروازہ تھا

مصنف نے صحرا گرد مجنوں کي صفت ڈال کر اُس کے گھر کا پتہ ديا يعني مجنوں کا گھر تو صحرا ہے اور صحرا وہ گھر ہے جس ميں دروازہ نہيں پھر ليليٰ کيوں وحشي ہوکر اُس کے پاس نہيں چلي آتي کون اُسے مانع ہے -

پوچھ مت رُسوائي انداز استغنائے حسن

دست مرہون حنا رخسار رہن غازہ تھا

يعني حسن کو باوجود استغنا ايسي احتياج ہے کہ ہاتھ حنا کي طرف اور منہ غازہ کي طرف پھيلائے ہوئے ہے -

نالۂ دل نے ديے اوراق لخت دل بباد

يادگار نالا اک ديوان بے شيرازہ تھا

بباد ديے يعني برباد کئے اس ميں پارۂ دل کو اوراق سے تشبيہ دي پھر اوراق کو ديوان بے شيرازہ سے تشبيہ دي اور نالہ کو شاعر فرض کيا ہے جس نے اپني يادگار کو آپ برباد کيا - بباد و ادن فارسي کا محاورہ ہے اُردو ميں برباد کرنا کہتے ہيں -

پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان