• صارفین کی تعداد :
  • 1159
  • 11/11/2012
  • تاريخ :

دوست غم خواري ميں ميري سعي فرمائيں گے کيا

زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائيں گے کيا

مرزا غالب

شب خمارِ  شوق ساقي رست خيز انداز تھا/ تامحيط بادہ صورت خانۂ خميازہ تھا

بسکہ دُشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا/ آدمي کو بھي ميسر نہيں انساں ہونا

سراپا رہن عشق و ناگزير الفت ہستي/ عبادت برق کي کرتا ہوں اور افسوس حاصل کيا

ہوں ترے وعدہ نہ کرنے ميں بھي راضي کہ کبھي / گوش منت کش گل بانگ تسلي نہ ہوا

دوست غم خواري ميں ميري سعي فرمائيں گے کيا

زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائيں گے کيا

پہلے مصرع ميں ’ کيا ‘ تحقير کے لئے ہے اور دوسرے مصرع ميں استفہام انکاري کے لئے ، يعني ميرے ناخن کاٹنے سے کيا فائدہ ، کيا پھر بڑھ نہ آئيں گے -

بے نيازي حد سے گذري بندہ پرور کب تلک

ہم کہيں گے حال دل اور آپ فرمائيں گے کيا ؟

کہتے ہيں تمہاري بے توجہي حد سے گذرگئي کہ ميرا حال متوجہ ہوکر نہيں سنتے اور ہر بار تجاہل سے کہتے ہو کہ ’ کيا کہا ‘ اس شعر ميں کيا ، محل حکايت ميں ہے جس طرح آگے مصنف نے کہا ہے  :

تجاہل پيشگي سے مدعا کيا

کہاں تک اے سراپا ناز کيا کيا

حضرتِ  ناصح گر آويں ، ديدہ و دل فرشِ  راہ

کوئي مجھ کو يہ تو سمجھادو کہ سمجھائيں گے کيا

صاف شعر کا کيا کہنا گو دوسرے مصرع ميں سے ’ مگر ‘ محذوف ہے مگر خوبي يہ ہے کہ اس طرح سے اور کيا ہے کہ ديوانگي کي تصوير کھنچ گئي -

آج وہاں تيغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں ميں

عذر ميرے قتل کرنے ميں وہ اب لائيں گے کيا ؟

يعني اگر اس کے پاس تلوار نہ ہو گي تو ميں دے دوں گا -

گر کيا ناصح نے ہم کو قيد اچھا يوں سہي

يہ جنونِ  عشق کے انداز چھٹ جائيں گے کيا ؟

’ کيا ‘ استفہام انکاري کے لئے ہے اور قيد ہونا اور چھٹ جانا دونوں کا اجتماع لطف سے خالي نہيں -

خانہ زادِ  زلف ہيں زنجير سے بھاگيں گے کيوں

ہيں گرفتارِ  وفا زنداں سے گھبرائيں گے کيا

فاعل يعني لفظ ’ ہم ‘ محذوف ہے -

ہے اب اس معمورہ ميں قحط غم الفت اسد

ہم نے يہ مانا کہ دلي ميں رہيں کھائيں گے کيا

ہميں تو غم کھانے کا مزہ پڑا ہوا ہے اور وہي يہاں نہيں يعني اس شہر ميں ايسے معشوق نہيں جن سے محبت کيجئے -

پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان