• صارفین کی تعداد :
  • 1167
  • 10/10/2012
  • تاريخ :

ظفر کي شاعري ميں منظر نگاري کا بھي حسنِ امتزاج ہے

بہادر شاہ ظفر

ظفر کي شاعري کي سنگلاخ زمينوں کي سطح کو توڑنے ميں پسينہ پسينہ ہو جاتے ہيں

بہادر شاہ ظفر اور 1857 

ظفر کي شاعري ميں منظر نگاري کا بھي حسنِ امتزاج ہے اور اس سلسلے ميں بھي ان کے قوتِ متخيلہ کي داد ديني پڑتي ہے- اس سلسلے ميں ڈاکٹر تنوير احمد علوي لکھتے ہيں-

’’ايسے مواقع پر ظفر کي طبيعت طرفہ تماشائي بني نظر آتي ہے اور يہاں بات تماشہ تک ہي محدود نہيں ہے بلکہ ظفر اس خوبصورت موقع پر اپني طبيعت کي خوشيوں اور چہل بازيوں کا ذکر کرنے ميں بھي تکلف نہيں کرتے- اس طرح کے شعروں ميں زندگي کي جو لہر آگے بڑھتي اور رگ رگ ميں پھيلتي محسوس ہوتي ہے اس کي لفظي تصوير پيش کرنے ميں ظفر کو غير معمولي کاميابي حاصل ہے اور اس کا يہ تعلق زندگي سے بہت قريب کا معلوم ہوتا ہے-‘‘

(ذوق سوانح اور انتقاد ص:42)

کنارِ آب ہو، مہتاب ہو، ساغر ہو، مينا ہو

جو يہ سامانِ کل ہوں پھر تو چہليں ہوں، تماشہ ہو

ہم سے شرماۆ نہ تم چشم حيا کو کھولو

مثلِ گل شوق سے اب بندِ قبا کو کھولو

شمشير برہنہ مانگ غضب آنکھوں کي چمک پھر ويسي ہے

جوڑے کي گندھاوٹ قہرِ خدا بالوں کي مہک پھر ويسي ہے

تا درِ جاناں ہميں اول تو جانا منع ہے

اور گئے تو حلقۂ در کا ہلانا منع ہے

حلقۂ در گر ہلايا بھي تو بولے کون ہے

اب بتائيں کيا کہ نام اپنا بتانا منع ہے

غل مچا کر گر پکارا بھي تو جھنجھلا کر کہا

جاۆ کيوں آئے تمھيں گھر ميں بلانا منع ہے

ظفر کے يہ اشعار ان کے ذاتي محسوسات سے بہت قريب معلوم ہوتے ہيں ليکن ذاتي محسوسات و تجربات کو شعر کا قالب عطا کرنا ان کا کمال ہے- ايسے مواقع پر ان کي شاعري ميں لفظيات کي دنيا ايک خاص قسم کي بے ساختگي کو پروان چڑھاتي ہے اور يہي بے ساختگي ان کي شاعري کا حسن ہے- اس سلسلے ميں عشرت جہاں ہاشمي رقم طراز ہيں :

’’ظفر کي شاعري جن ذہني امور اور حياتِ گذراں کے جن کوائف کو پيش کرتے ہيں وہ ايک شہزادہ کي زندگي سے بہت قريب ہے- ٹھيک ہے کہ دوسروں کو بھي يہ مواقع ملتے ہيں ليکن عيشِ امروز کا يہ تصور اور آغوشِ انبساط سے لطف لينے کا يہ انداز، مسرور ہونے کي يہ خواہش اور کامياب ہونے کي يہ خوشي سب کا حصّہ نہيں ہو سکتي-بالخصوص اس کا شاعرانہ بيان‘‘

ظفر کے عہد ميں تصوف کو ايک خاص اہميت حاصل تھي اور وہ خود بھي ’’مياں کالے صاحب‘‘ کے خاندان ميں بيت تھے اور خود بھي دوسروں کو مريد کرتے تھے اسي ليے ان کو پير و مرشد بھي کہا جاتا تھا- حالانکہ ان کي شاعري ميں غالب رنگ تصوف کا نہيں ليکن چيدہ چيدہ اشعار اس امر کي چغلي کھاتے ہيں کہ وہ اس سلسلے ميں کورے نہ تھے-

ميري آنکھ بند تھي جب تلک وہ نظر ميں نورِ جمال تھا

کھلي آنکھ تو نہ خبر رہي کہ وہ خواب تھا کہ خيال تھا

نہ وہ زميں کے نہ ہے آسماں کے پردے ميں

مگر ہے جلوہ نما دو جہاں کے پردے ميں

دوئي کا پردہ اٹھا دل سے اور آنکھ سے ديکھ

خدا کے نور کو حسنِ بتاں کے پردے ميں

ڈاکٹر اسلم پرويز نے ظفر کے سلسلے ميں جو باتيں کي ہيں اس ميں انھوں نے ظفر کے چار اہم رنگ کا ذکر کيا ہے لکھتے ہيں :

’’اول وہ کلام جس ميں محض فنّي مہارت بہم پہنچائي ہے اور قادرالکلامي کا مظاہرہ کيا ہے- دوم وہ کلام جس ميں گيت نما غزليں قوالياں ٹھمرياں اور مخمس وغيرہ ہيں سوم وہ کلام ہے جس ميں مذہبي اور تصوفانہ اشعار ملتے ہيں جس کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے ذہن پر مذہب اور تصوف کا گہرا اثر ہے، چہارم وہ کلام جن ميں ان کي انفراديت نماياں اور فن کاري کار فرما ہے-‘‘

اسلم پرويز کي رائے سے اختلاف کي گنجائش يوں بھي نہيں کہ انھوں نے ظفر پر اپنا پي ايچ ڈي کا مقالہ لکھا ہے ليکن عام طور پر ظفر کي شاعري کا مخصوص رنگ ان کي شاعري ميں موجود عشق و حسن کا تصور ہے جس کي حديں معاملہ بندي سے جا ملتي ہيں ليکن مجھے بار بار يہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ يہ ساري معاملہ بندي ان کا وہ فرار ہے جو وہ اپنے مسائل سے کرتے ہيں ليکن جيسے ہي وہ پھر اپنے ہوش ميں آتے ہيں اور حقائق سے نظريں ملتي ہيں تو وہ بے ساختہ کہہ اٹھتے ہيں    طژ

نہيں عشق ميں اس کا تو رنج ہميں کہ قرار و شکيب ذرا نہ رہا

غمِ عشق تو اپنا رفيق رہا کوئي اور بلا سے رہا نہ رہا

ديا اپني خودي کو جو ہم نے اٹھا وہ جو پردہ سا بيچ ميں تھا نہ رہا

رہا پردہ ميں اب نہ وہ پردہ نشيں کوئي دوسرا اس کے سوا نہ رہا

نہ تھي حال کي جب ہميں اپنے خبر رہے ديکھتے اوروں کے عيب و ہنر

پڑي اپني برائيوں پر جو نظر تو نگاہ ميں کوئي برا نہ رہا

يا مجھے افسرِ شاہانہ بنايا ہوتا

يا مرا تاج گدايانہ بنايا ہوتا

روشِ گل ميں کہاں يار ہنسانے والے

ہم کو شبنم کي طرح سب ہيں رلانے والے

يہ وہ رنگ ہے جس ميں عہدِ بہادر شاہ کي صاف جھلک دکھائي ديتي ہے اور 1857کي پہلي جنگ آزادي جسے نا کام جنگ آزادي کہنا چاہيے کي نا کامي کا سارا کرب اس رنگ کے پس منظر ميں صاف نظر آتا ہے-

 سر سيد جس کے عيني شاہد ہيں- موصوف نے ان حالات کا مقابلہ کر نے کے لئے علي گڑھ مسلم يونيورسٹي قائم کيا تھا اور 1857کے انقلاب کو اپني تحرير کا موضوع بنايا- انہوں نے اسباب بغاوتِ ہند اور تاريخ سر کشي بجنور لکھ کر 1857ء کي تاريخ کو محفوظ کر ليا ہے-تقريباً 80ہزار دستاويزات آج بھي اردو اور فارسي ميں 1857ء کے واقعات موجود ہيں جن تک رسائي ہمارے لئے لازمي ہے- اردو اور فارسي کے بغير 1857ء کے انقلاب کو سمجھنا مشکل امر ہے- ميرے يہ مضمون جہاں ادبي تاريخ کے محققين اور طلباء کے لئے نئے مواد کي فراہمي کا وسيلہ ہے وہيں ہند و پاک کي جديد تاريخ ميں ايک نئے باب کا اضافہ بھي- 1857ء کے انقلاب کي سب سے بڑي خصوصيت ہندو  مسلم اتحاد تھا جو آج بھي اس ملک کي قومي ضرورت ہے- مجھے اميد ہے کہ ميرے يہ چند سطور اس ضرورت کي تکميل ميں سنگ ميل کا حکم ثابت ہو گا-  

تحرير: ڈاکٹر محمد يحيٰ صبا

پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان