• صارفین کی تعداد :
  • 899
  • 8/21/2012
  • تاريخ :

بسم اللہ کي تقريب 

سر سید

 سر سيد کہتے تھے کہ:

" مجھ کو اپني بسم اللہ کي تقريب بخوبي ياد ہے- سہ پہر  کا وقت تھا اور آدمي کثرت سے جمع تھے ، خصوصاً حضرت شاہ غلام علي صاحب بھي تشريف رکھتے تھے مجھ کو لا کر حضرت کے سامنے بٹھا ديا تھا- ميں اس مجمع کو ديکھ کر ہکا بکا سا ہو گيا ، ميرے سامنے تختي رکھي گئي اور غالباً شاہ صاحب ہي نے فرمايا کہ پڑھو ، بسم اللہ الرحمن الرحيم ، مگر ميں کچھ نہ بولا اور حضرت صاحب کي طرف ديکھتا رہا- انہوں نے اٹھا کر مجھے اپني گود ميں بٹھا ليا اور فرمايا کہ ہمارے پاس بيٹھ کر پڑھيں گے " اور اول بسم اللہ پڑھ کر " اقراء " کي اول کي آيتيں " مالم يعلم " تک پڑھيں- ميں بھي ان کے ساتھ ساتھ پڑھتا گيا- " سر سيد نے جب يہ ذکر کيا تو بطور فخر کے اپنا يہ فارسي شعر ، جو خاص اسي موقع کے لئے انھوں نے کبھي کہا تھا ، پڑھا  " بہ مکتب رفتم و آموختم اسرار يزداني  زفيض نقش بند وقت و جان جان جاناني "

 مجلس ختم قرآن :

 بسم اللہ ختم ہونے کے بعد سر سيد نے قرآن مجيد پڑھنا شروع کيا- ان کے ننھيال ميں قديم سے کوئي نہ کوئي استاني نوکر رہتي تھي- سر سيد نے استاني ہي سے، جو ايک اشراف گھر کي پردہ نشين بي بي تھي ، سارا قرآن ناظرہ پڑھا تھا- وہ کہتے تھے کہ :

" ميرا قرآن ختم ہونے پر ہديہ کي مجلس جو زنانہ ميں ہوئي تھي وہ اس قدر دلچسپ اور عجيب تھي کہ پھر کسي ايسي  مجلس ميں وہ کيفيت ميں نے نہيں ديکھي-"

قديم نوکراني کي موت :

 سر سيد کو مسمات ماں بي بي نے، جو ايک قديم خير خواہ خادمہ ان کے گھرانے کي تھي ، پالا تھا ، اس لئے ان کو ماں بي بي سے نہايت محبت تھي وہ پانچ برس کے تھے جب ماں بي بي کا انتقال ہوا ، ان کا بياں ہے کہ :

" مجھے خوب ياد ہے ، ماں بي بي مرنے سے چند گھنٹے  پہلے فالسہ کا شربت مجھ کو پلا رہي تھي- جب وہ مر گئي  تو مجھے اس کے مرنے کا نہايت رنج ہوا- ميري والدہ نے مجھے سمجھايا کہ وہ خدا کے پاس چکي گئي ہے ، بہت اچھے مکاں ميں  رہتي ہے ، بہت سے نوکر چاکر اس کي خدمت کرتے ہيں اور اس کي بہت آرام سے گزرتي ہے تم کچھ رنج مت کرو-" مجھ کو ان کے کہنے سے پورا يقين تھا کہ في الوقت ايسا ہي ہے- مدت تک ہر جمعرات کو اس کي فاتحہ ہوا کرتي تھي اور کسي محتاج کو کھانا ديا جاتا تھا- مجھے يقين تھا کہ يہ کھانا مان بي بي کے پاس پہنچ جاتا ہے- اس نے مرتے وقت کہا تھا کہ " ميرا تمام زيور سيد کاہے " مگر ميري والدہ اس کو خيرات ميں دينا چاہتي تھيں ، ايک دن انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ " اگر تم کہو تو يہ گہنا ماں بي بي کے پاس بھيج دوں ؟ " ميں نے کہا " ہاں بھيج دو-"  والدہ نے وہ سب گہنا مختلف طرح سے خيرات ميں ديديا-"

راوي: الطاف حسين حالي

پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

ہوں ترے وعدہ نہ کرنے ميں بھي راضي کہ کبھي/ گوش منت کش گل بانگ تسلي نہ ہوا