ستائش گر ہے زائد اس قدر جس باغ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بے خودوں کے طاق نسياں کا
کسي شئے کو طاق پر رکھنا يا بالائے طاق رکھ دينا محاورہ ہے اس کا خيال ترک کر دينے کے معني پر اور طاق نسياں پر رکھنا اور بھي زيادہ مبالغہ ہے اور يہاں گلدستہ کي لفظ نے يہ حسن پيدا کيا ہے کہ گلدستہ کو زينت کے لئے طاق پر رکھا کرتے ہيں ، دوسرے يہ کہ باغ کو مقام تحقير گلدستہ سے تعبير کيا ہے ، يہ بھي حسن سے خالي نہيں ليکن يہ حسن بيان و بديع سے تعلق رکھتا ہے ، معنوي خوبي نہيں ہے -
بياں کيا کيجئے بيداد کاوشہائے مژگاں کا
کہ ہر اک قطرۂ خوں دانہ ہے تسبيحِ مرجاں کا
يعني سوزن مژگاں نے ايسي کاوشيں کيں کہ ميرے جسم ميں ہر ايک قطرۂ خوں تسبيح مرجان کا دانہ بن گيا ہے يعني ہر قطرۂ خون سوراخ پڑگيا -
نہ آئي سطوت قاتل بھي مانع ميرے نالوں کو
ليا دانتوں ميں جو تنکا ہوا ريشہ نيستاں کا
دستور ہے کہ کسي کے رعب و سطوت کے اظہار کرنے کے لئے جو مرعوب ہو جاتا ہے وہ اپنے دانتوں ميں گھانس پھونس اُٹھاکر دباليتا ہے تاکہ وہ شخص اسے اپنا مطيع و مغلوب سمجھے اور قصدِ قتل سے باز آئے ، شاعر کہتا ہے کہ قاتل کے رعب و سطوت سے بھي ميري نالہ کشي نہ موقوف ہوئي ميں نے جو تنکا اظہارِ رعب کے لئے دانتوں ميں دبايا وہ ريشہ نيستاں ہو گيا اور يہ ظاہر ہے کہ نيستاں ميں نے پيدا ہوتي ہے اور نے صاحبِ نالہ ہے غرض کہ وہ تنکا نالہ کشي کي جڑ ہو گيا -
دکھاۆں گا تماشا ، دي اگر فرصت زمانے نے
مرا ہر داغِ دل ايک تخم ہے سروِ چراغاں کا
يعني ايک ايک داغ سے نالۂ پرشرر نکلے گا جو سرو چراغاں سے مشابہ ہو گا تو گويا داغ دل وہ بيج ہے جس سے سروِ چراغاں اُگے گا -
کيا آئينہ خانہ کا وہ نقشہ تيرے جلوہ نے
کرے جو پرتوِ خورشيد عالم شبنم ستاں کا
يعني جس طرح آفتاب کے سامنے شبنم نہيں ٹھہرسکتي اُسي طرح تيرے مقابلہ کي تاب آئينہ نہيں لاسکتا آئينہ خانہ کي تشبيہ شبنم ستاں سے تشبيہ مرکب ہے -
مري تعمير ميں مضمر ہے اک صورت خرابي کي
ہيوليٰ برق خرمن کاہے خون گرم دہقاں کا
يعني ميں وہ دہقان ہوں جس کي سرگرمي خود اُسي کے خرمن کے لئے برق کا کام کرتي ہے يعني خرمن کو جلا ڈالتي ہے - يہ اشارہ ہے اس بات کي طرف کہ حرارت غريزي جو کہ باعثِ حيات ہے خود وہي ہر وقت تحليل و فنا بھي کررہي ہے - ہيوليٰ بمعني مادہ اور مصنف نے صورت کي لفظ ہيوليٰ مناسبت سے استعمال کي ہے اور تعمير سے تعمير جسم خاکي مقصود ہے خون گرم بھني ہوئي سرگرمي - اس شعر ميں جو مسئلہ طب مصنف نے نظم کيا ہے اُسے آگے بھي کئي جگہ باندھا ہے -
اُگا ہے گھر ميں ہر سو سبزہ ويراني تماشا کر
مدار اب کھودنے پر گھاس کے ہے ميرے درباں کا
سبزہ سے مراد سبزۂ بيگانہ ہے اس سبب سے کہ جو سبزہ بے موقع اُگتا ہے اُسے سبزۂ بيگانہ کہتے ہيں اور گھر ميں سبزہ کا اُگنا بے موقع ہے تو مراد مصنف کي يہ ہے کہ ويراني کي نوبت يہ پہنچي ہے کہ سبزۂ بيگانہ ميرے گھر ميں اُگا ہے اور دربان کا کام ہے کہ بيگانہ کو گھر کے اندر سے نکال دے ، تماشا کر يعني يہ سير ديکھ -
خموشي ميں نہاں خوں گشتہ لاکھوں آرزوئيں ہيں
چراغِ مردہ ہوں ميں بے زباں گورِ غريباں کا
خاموش آدمي کو بے زبان کہتے ہيں اور چراغ کي لو کو زبان سے تشبيہ ديتے ہيں تو بجھے ہوئے چراغ کو بے زبان آدمي کے ساتھ مشابہت ہے اور اسي طرح سے خوں گشتہ آرزوۆں کو گورِ غريباں سے مشابہت ہے -
ہنوز اک پرتوِ نقشِ خيالِ يار باقي ہے
دل افسردہ گويا حجرہ ہے يوسف کے زنداں کا
ہنوز کي لفظ سے يہ معني نکلتے ہيں کہ خيال بھلانے پر بھي کچھ پرتو اس کا باقي رہ گيا ہے اور اس پرتو ميں بھي يہ نور ہے کہ دل پر حجرۂ زندان يوسف کا عالم ہے اور اس شعر ميں لفظ افسردہ سے دل کا حجرہ ہونا ظاہر ہوا اور خيال يار کے بھلانے کا سبب بھي اسي لفظ سے پيدا ہے يعني جب دل افسردہ ہوا تو پھر خيالِ يار کيسا اور افسردگي کو تنگي لازم ہے ، اس سبب سے حجرہ اُسے کہا کہ تنگ کوٹھري کا نام حجرہ ہے -
بغل ميں غير کے آج آپ سوتے ہيں کہيں ورنہ
سبب کيا خواب ميں آ کر تبسم ہائے پنہاں کا
مصنف کا مطلب يہ معلوم ہوتا ہے کہ رقيب کي بغل ميں جو چپکے چپکے تو ہنس رہا ہے مجھے وہ ہنسي خواب ميں دکھائي دے رہي ہے اور اُسي ہنسي کا اندازہ ديکھ کر ميں سمجھ گيا کہ اس انداز کي ہنسي وصل ہي کے وقت ہوتي ہے ورنہ تو ميرے خواب ميں آ کر ميرے ساتھ تبسم پنہاں کرے ميرے ايسے نصيب کہاں -
نہيں معلوم کس کس کا لہو پاني ہوا ہو گا
قيامت ہے سر شک آلودہ ہونا تيري مژگاں کا
لہو پاني ايک ہونا رونے کے معني پر ہے يعني تيري آنکھ ميں آنسو ديکھنے کي تاب کس کو ہے اور اشارہ اس بات کي طرف بھي کيا ہے کہ مژگانِ معشوق جو ہميشہ دل و جگر عشاق ميں کھٹکا کرتي ہے اُس کا آنسو وہي آنسو ہيں جو عشاق کے دل ميں پيدا ہوکر آنکھوں کي طرف جايا چاہتے تھے يعني تيري پلکوں پر جو آنسو ہيں وہ تيرے دل سے نکلے ہوئے نہيں ہيں بلکہ يہ آنسو وہي ہيں جو عشاق کے دل و جگر ميں پيدا ہوئے تھے اور تيري مژہ پر آنسو ہونا اس کي علامت ہے کہ عشاق کا لہو پاني ايک ہو گيا -
نظر ميں ہے ہماري جادۂ راہ فنا غالب
کہ يہ شيرازہ ہے عالم کے اجزائے پريشاں کا
يعني جس رشتۂ فنا ميں تمام اوراقِ عالم سئے ہوئے ہيں اُن سے بھولا ہوا نہيں ہوں يعني فنا ہر وقت ميري آنکھوں کے سامنے ہے -
پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان