شہادتِ وہب
امام سجاد نے فرمایا: اے شام کے لوگو! میں رسول اللّٰہ کا فرزند ہوں جن کا تم کلمہ پڑھتے ہو۔ اپنے اپنے زمانے میں اور دیگر کمالات کے اعتبار سے امام حسین علیہ السلام نے جو مظاہرہ کیا ہے کمال کا ، کیسا مظاہرہ؟ اس وقت صبر کو بیان نہیں کررہا۔ مظالم کو برداشت کرنا، یہ نہیں کہنا چاہتا، یہ روزانہ آپ سنتے رہتے ہیں۔ میں ایک بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ نے جو اپنے کمال کو پیش کیا ہے،وہ یہ کہ ایسے لوگ بنا لئے کہ کربلا میں پہنچنے کے بعد مصائب کا آسمان ٹوٹ پڑا مگر انہوں نے اُف بھی نہ کی۔ ایسی عورتیں آپ نے اپنی تبلیغ کے ذریعے سے مہیا کرلیں کہ اتنی مصیبتیں گزر گئیں لیکن ایک وقت میں بھی انہوں نے شکایت نہ کی۔ مرد__وہ تھے جن کے بارے میں آپ اکثر سنا کرتے ہیں کہ تین دن کی پیاس مگر کبھی کسی نے یہ نام بھی نہیں لیا کہ پانی بھی کوئی چیز ہے دنیا میں یا نہیں!
آپ کا یہ کمال کا مظاہرہ تھا۔ ایسے بچے جنہوں نے تیر کھائے اور خدا کی قسم! مسکراتے ہوئے دنیا سے چلے گئے۔ایسے اصحاب پیدا کرلئے کہ سامنے کھڑے ہوگئے اور پیچھے امام حسین نماز پڑھ رہے ہیں۔ تیر آتے ہیں اور ہڈیوں کو توڑتے ہوئے گزرتے ہیں مگر اُنہیں یہ پتہ بھی نہیں چلتا کہ کب تیر آیا اور کب سینے کے پار ہوگیا۔ ایسی خواتین امام علیہ السلام اپنے ساتھ لائے جو خدا کے نام کیلئے جوان بیٹوں کو قربان کرنے کیلئے آئی تھیں۔ اس لئے ساتھ آئیں کہ یہ قربانی ہمارے سامنے ہو۔ یہ الفاظ نہیں ہیں، یہ واقعات ہیں جن کے بارے میں روزانہ سنتے رہتے ہیں اور کتب تاریخ میں یہ چیزیں موجود ہیں کہ ایسی خواتین ساتھ لائے کہ جو ان بیٹوں کو خود انہوں نے رخصت کیا اور کہہ کر رخصت کیا کہ اس وقت تک میں خوش نہیں ہوں گی ، اُس وقت دودھ نہ بخشوں گی جب تک تیری لاش نہ آجائے گی۔ چنانچہ لاشیں آئیں اُن کی تو انہوں نے سب سے پہلا کام جو کیا، وہ سجدئہ شکر ادا کیا، خدایا! تو نے ہمیں سیدہ فاطمہ زہرا کے سامنے سرخرو کر دیا (اللہ اکبر)۔
وہب کا واقعہ عام طور پر آپ سنتے رہتے ہیں۔ اُن کی ماں نے آواز دی کہ کہاں ہے میرا بیٹا؟ وہب نے کہاکہ حاضر ہوں۔ ان کی ماں نے کہا کہ ابھی تک تو صرف دیکھ ہی رہا ہے، لاشیں آرہی ہیں اور امام حسین لاشیں اُٹھا اُٹھا کر لارہے ہیں اور تو اس طرح سے کھڑا میدان کی طرف دیکھ رہا ہے، اسی لئے تجھے ساتھ لائی تھی؟
اُس نے کہا:
نہیں، میں ابھی جان قربان کروں گا۔ دل تو دیکھئے گا اُن کا! تصوربڑی مشکل سے ہوتا ہے کیونکہ نظروں کا ملانا ناممکن ہوگیا ہے۔
وہ کہتی ہیں: کب تک دیکھتا رہے گا اور میں کب تک تیرا انتظار کروں گی کہ تیری لاش آئے؟ اُس نے کہا: آپ گھبرائیے نہیں، میں ابھی جا رہا ہوں۔ کہا ہاں! میں اسی لئے تجھے پکار رہی ہوں اور خیمے سے نکلی ہوں کہ تو میرے سامنے جا۔ اُس نے کہا: بہت اچھا، میں جاتا ہوں۔ صبح سے اسلحہ جسم پر سجا ہوا تھا، جانے لگا خیمے کی طرف۔ کہا! ادھر کہاں جارہا ہے؟ اُس نے کہا: میں اپنی بیوی سے(سترہ دن ہوئے تھے شادی کو) اتنا کہہ دوں کہ میں مرنے کیلئے جارہا ہوں۔ اُس نے کہا: ادھر جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے، اُس سے کہنے کی کیا ضرورت ہے؟
ارے یہ شہادت کا مرتبہ ہے اور اس میں کسی سے کہنے اور کسی سے مشورہ کرنے؟اُس نے کہا: نہیں، مشورہ نہیں ہے، میں صرف کہنا چاہتا ہوں۔ گیا، پردہ جو اُٹھایا، دیکھا کہ پردے کے پاس اُس کی بیوی کھڑی ہے اور اُس نے دیکھتے ہی کہا کہ وہب! ابھی تم زندہ ہو؟ اُس نے کہا:
تم میری موت کی کیوں خواہش مند ہوگئیں؟ تو وہ کہتی ہے کہ زینب کی بے کلی نہیں دیکھی جاتی۔ زینب کی مظلومی و بیکسی نہیں دیکھی جاتی، میں زینب کے سامنے اُس وقت جاؤں گی جب تمہاری لاش آجائے گی۔
یہ امام حسین علیہ السلام کے کمالات کا مظاہرہ تھا کہ جب سے دنیا بنی ہے، اس وقت سے آج تک کہیں امکان ہی میں یہ چیز نہیں آسکی۔ اس کے بعد بچیاں لائے، بچے لائے۔ مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے کہاں کہاں فریادیں کیں؟ ہاں! ایک اور مقام پر اُن کی فریادوں کی آواز آئی: مثلا! بازارِ کوفہ یا بازارِ شام سے گزرے ہیں قیدی تو مکانوں کی چھتوں پر جو عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں، بعض ایسی تھیں جنہوں نے اپنے ہاتھ میں پتھر لئے ہوئے تھے، پتھر چلے ہیں اور ان بچوں پر پڑے ہیں تو ان بچوں کی چیخوں کی آواز اور اُس کے بعد جنابِ زینب کا کہنا: بیٹا زین العابدین ! بچے زخمی ہوگئے اور جنابِ زین العابدین علیہ السلام لوگو! یہ ہمیں اس طرح سے قید کرکے لئے جارہے ہیں جیسے حبش و زنجبار کے لوگوں کو قید کیا جاتا ہے۔ میں حبشی و زنجبار کا غلام نہیں ہوں بلکہ میں رسول اللہ کا نواسہ ہوں جس کا تم کلمہ پڑھتے ہو، میں اُن کا بیٹا ہوں۔
نام کتاب: روایات عزا
مصنف: علامہ حافظ کفایت حسین نور اللہ مرقدہ
متعلقہ تحریریں:
مخدراتِ عصمت کی اسیری
جنابِ رباب کی علی اصغر کو ہدایت
دربارِ یزید میں بنتِ زہرا کا انقلاب آفریں خطبہ
ناصر آل محمد
ناصر آل محمد (حصّہ دوّم)
امّ البنين مادر ابوالفضل (ع)
جناب سمانہ مغربیہ امام علی نقی (ع) کی والده
جناب سبیکہ (امام محمّد تقی علیہ السلام کی والده)
گوہر شاد آستانہ قدس رضوي كي خادمہ
امام علي بن موسي الرضا (ع) كي والده