امّ البنين مادر ابوالفضل (ع)
نام فاطمہ، حزام بن خالد كي بيٹي اور علي (ع) كي زوجہ ہيں- علي (ع) نے اپنے بهائي عقيل- جو تمام عرب كے خاندانوں سے واقف تهے- سے كہا : ميرے ليے عرب كے دلاور اور شريف خاندان كي لڑكي تلاش كيجيے كہ جس سے شجاع و رشيد بيٹا پيدا ہو-
عقيل نے كہا: فاطمہ بنت حزام كيسي ہيں؟ عرب ميں ان كے آباء و اجداد سے زياده شجاع نہيں ہيں- عرب كے عظيم شاعر لبيد نے انہيں كے بارے ميں حيره كے بادشاه نعمان بن منذر سے كہا تها:
ہم اس ماں كے چادر بہادر بيٹوں كي اولاد ہيں جو كہ جنگ كے ميدانوں ميں اپنے مد مقابل كو موت كے گهاٹ اتار ديتے تهے- اور مہمانوں كا بہت احترام كرتے تهے ہم عابر بن صعصعہ كے قبيلہ سے بلند وتر ہيں-
مختصر يہ كہ جناب ام البنين، والد كي طرف سے بهي اور والده- ثمانہ بنت سہيل بن عامر- كي طرف سے بهي نجيب و اصيل تهيں- فاطمہ زهراء (ع) كي وفات كے بعد، حضرت علي (ع) كے حبالہ نكاح ميں آئيں- ام البنين نے حضرت علي (ع) كے علاوه كسي دوسرے سے شادي نہيں كي-
علم و فضل والي عورت تهي- اہل بيت كي عظمت كا عرفان ركهتي تهيں، انہيں دل سے چاہتي تهيں- حضرت علي (ع) كے گهر آئيں تو اس وقت امام حسن (ع) و امام حسين (ع) بيمار تهے- آپ نے ايك شفيق ماں كي مانند ان كي تيمار داري كي اور راتوں كو ان كے پاس بيدار رہكر گذار ديا-
آپ سے چار بيٹے عباس، جنہيں قمر بني هاشم كہا جاتا تها، عبدالله، جعفر اور عثمان ہيں- رسول (ص) كے فداكار صحابي عثمان بن مظعون كے ہمنام تهے- ان چاروں بيٹوں كي وجہ سے آپ كو ام البنين كہا جاتا تها-
ان كي استقامت كے بارے ميں اتنا ہي كافي ہے كہ جب انہيں يہ بتايا گيا كہ چاروں بيٹے كربلا ميں شہيد ہو گئے، تو انہوں نے كہا : پہلے مجهے حسين (ع) كے بارے ميں خبر دو- ناقل نے انہيں ان كے بيٹوں كي شہادت كي خبر ترتيب وار سنائي، يہاں تك كہ نام عباس ليا تو خبر سنانے والے سے كہا: ميرے دل كے ٹكڑے كردئے – ميرے چار بيٹے تهے، ميں نے سب كو حسين (ع) بچے جاتے – حسين (ع) سے ان كي يہ محبت، ان كے خلوص، ايمان اور راسخ عقيده كا ثبوت ہے-
اس دردناك حادثہ كے بعد مجلس عزا بر پا كي، جس ميں بني هاشم كي تمام عورتوں، نے شركت كي اور شہداء كربلا كا غم منايا گيا- ام سلمہ نے روتے ہوئے كہا : خدا ان – بني اميہ- كي قبروں كو آگ سے بهر دے، انہوں نے كتنا بڑا ظلم كيا ہے؟
ام البنين نے اپنے شہيد ہونے والے بيٹوں كا دلسوز مرثيہ كہا ہے- حضرت عباس كے بچہ عبيدالله كو گود ميں لے كر ہر روز بقيع جاتي تهيں اور وهاں گريہ و زاري كرتي تهيں- اہل مدينہ بهي ان كے پاس جمع ہو جاتے اور نالہ و شيون ميں جصہ ليتے تهے، ايك دفعہ مروان بن حكم بهي وهاں موجود تها- ام البنين نے كہا: " جس نے عباس كو دشمن كي فوج پر حملہ كرتے ہوئے ديكها ہے اور حيدر كے بيٹے شير دلوں كي طرح ان كے پيچهے تهے- ميں نے سنا ہے كہ ميرے بيٹے كے سر پر ضربت لگي اور ان كے بازو قلم كر دئے گئے- هائے افسوس! ميرا بيٹا اس ضربت كي وجہ سے گرا! عباس! اگر تمہارے هاته ميں تلوار ہوتي تو كسي ميں تمہارے نزديك آنے كي ہمت نہ ہوتي-"
نيز كہا: " اب مجهے ام البنين نہ كہو! كيونكہ اس سے ميرے شير سے بچے ياد آتے ہيں- مجهے ان بيٹوں كي وجہ سے ام البنين كہا جاتا تها، ليكن آج ميں انہيں كهو چكي ہوں-
ميرے چار بيٹے شكاري شاہين كي مانند تهے جو تيغ ستم سے جاں بحق ہوئے- دشمن كے اسلحوں سے ان كا بدن پاره پاره ہوا اور وه اپنے خون ميں نہائے- كاش ميں جانتي تهي! كيا لوگوں كے كہنے كے مطابق ميرا عباس شہ رگ كٹنے سے شہيد ہوا ہے؟
با اخلاص، فداكار اور فضيلتوں والي عورتوں كے درميان نمونہ ہيں-
کتاب کا نام | مثالی خواتین |
مؤلف | ڈاکٹر احمد بہشتی |
مترجم | نثار احمد زینپوری |
پیشکش | شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان |