جنابِ رباب کی علی اصغر کو ہدایت
جنابِ رباب نے ننھی سی پیشانی اور خشک ہونٹوں پر بوسہ دے کر کہا تھا: میرے لعل! تو نے آخری وقت رونا نہیں ہے کہ تیرے باپ کو تکلیف پہنچے گی.
شہادتِ امام مظلوم وہ داغ ہے جو تمام آئمہ طاہرین کے دلوں پر ہے، خصوصاً شش ماہے کا گلا اور تیر سہ شعبہ، چوتھے امام کی خدمت میں ایک شخص آیا اور دیکھا کہ پانی پینا چاہتے ہیں لیکن پیالہ آنسوؤں سے رنگین ہوجاتا ہے اور پھینک دیتے ہیں۔ عرض کیا: مولا ! کب تک آپ روئیں گے؟ فرمایا:
یعقوب کے بارہ بیٹے تھے، ایک گم ہوگیا تھا، علم نبوت سے جانتے تھے کہ یوسف زندہ ہے۔ اس پر اس قدر روئے کہ آپ کی آنکھیں بے نور ہوگئیں۔ میرے سامنے تو اٹھارہ جوانانِ بنی ہاشم قتل کر ڈالے گئے۔ میں کیسے نہ روؤں؟
اُس نے عرض کیا: مولا ! شہادت تو آپ کی میراث ہے۔ فرمایا: ہاں، کیا ماں بہنوں کی اسیری بھی ہماری میراث ہے؟
آپ جانتے ہیں کہ شہزادیاں کتنے دن قید خانہ میں رہیں۔ سکینہ مرگئیں، اُن کی قبر قید خانہ میں بنی جنازہ اُٹھانے والا کوئی نہ تھا۔ قید سے چھوٹ کر جنابِ زینب جب جانے لگیں اور دمشق کی بیبیاں آئیں تو کہا:
بھائی کی نشانی قید خانے میں چھوڑے جارہی ہوں۔ باپ کے بعد جی بھر کر پانی نہ پی سکی۔ اُس کی قبر پر ٹھنڈا پانی ڈالنا۔مردوں کا ذکر نہیں، بیبیوں کا ذکر کر رہا ہوں۔
کسی نے سنا کبھی کسی بی بی نے شکایت کی تھی جس وقت قافلہ دربارِ یزید کے قریب پہنچا اور قیدی دربار میں بلائے گئے؟ بیبیوں نے سمٹ کر فاطمہ کی بیٹی زینب کو درمیان میں لے لیا تاکہ لوگوں کی نظر نہ پڑے لیکن یزید ملعون کے حکم سے سب کوہٹایا گیا۔ بی بی فضہ نہ ہٹیں۔ شمر نے جب تازیانہ لگانا چاہا ، اپنی قوم والوں سے مخاطب ہوئیں۔ غلامانِ حبش بدل گئے اور تلواریں کھینچ لیں۔
بھرے دربار میں ، جس میں صحابیِ رسول بھی موجود تھے، کسی کو فاطمہ کی بیٹی پر رحم نہ آیا اور کوئی کھڑا نہ ہوا۔
زینب بے چین ہوگئیں اور پھر پکارا:
یا محمدا! حبشی کنیز کیلئے تلواریں نکل گئیں لیکن آپ کی نواسی کی سفارش اور حمایت کرنے والا کوئی نہیں۔ امام حسین نے وہ کارنامہ چھوڑا ہے کہ اُس کا مثل ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ اپنے ساتھ مرد ایسے لائے تھے کہ تلواریں کھائیں، پیاسے رہے اور جان دے دی۔ بچے ایسے لائے تھے کہ طمانچے کھائے لیکن شکایت نہ کی۔ عورتیں ایسی ساتھ آئی تھیں کہ بھری ہوئی گودیاں خالی کردیں اور بچوں کو گھوڑوں پر خود سوار کرکے میدانِ جنگ میں بھیج دیا۔ امام حسین معصوم تھے جنابِ رباب تو معصومہ نہ تھیں۔
اولاد والو! جب چھ ماہ کا بچہ ماں باپ کے ہاتھوں پر آتا ہے اور مسکراتا ہے تو اُن کے دل سے پوچھو۔ امام حسین جب میدان میں آئے اور استغاثہ بلند کیا تو خیمہ سے رونے کی آوازیں بلند ہوئیں۔ امام آئے اور پوچھا: بہن زینب ! یہ فریاد کی آواز کیسی؟ بہن نے کہا: بھائی! قیامت ہوگئی، اصغر کوگود میں لے لیا۔ گود میں علی اصغر ہیں، امام کیسے سوار ہوں؟ عام طور پر جب کوئی شخص گھوڑے پر سوار ہونا چاہتا ہے تو ایک ہاتھ میں باگ اور ایک ہاتھ گھوڑے کی پشت پر رکھتا ہے۔ انصاف سے فرمائیے کہ جب دونوں ہاتھوں میں بچہ ہو تو کس طرح سوار ہوں؟ معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین نے بچے کو بہن کی گود میں دے دیا ہو اور سوار ہونے کے بعد بہن نے بھائی کے حوالے کیا ہو۔
ابھی تک رباب کھڑی ہوئی تھیں۔ قریب آکر کہا:
میرے آقا! میرے بچے کو ذرا مجھے دے دیجئے۔ بیبیوں نے سمجھا کہ پیار کرنے کیلئے لیا ہے۔ رباب بچے کو لئے ہوئے خیمے میں پہنچیں۔
علی اصغر کو نیا کرتہ پہنایا، بالوں میں کنگھی کی، آنکھوں میں سرمہ لگایا اور باپ کی گود میں واپس دے دیا اور کہا: جو گیامیدان میں ،واپس نہیں آیا، اُسے واپس کیا لاؤ گے؟حسین چلے گئے۔ بچے کیلئے پانی مانگا، تیر چلا، تین پھال کا تیر، معصوم کی گردن، حسین نے اصغر کی گردن اپنے بازو سے ملا دی۔ تیرا ٓیا اور معصوم کی گردن اور حسین کے بازو میں پیوست ہوگیا۔ حسین نے علی اصغر کی گردن سے تیر نکالا اور دیکھا کہ علی اصغر مسکرارہے ہیں۔وہ اس لئے کہ جنابِ رباب نے رخصت کرتے وقت، ننھی سی پیشانی اور خشک ہونٹوں پر بوسہ دے کر کہا تھا: میرے لعل! آخری وقت تو نے رونا نہیں ہے۔
نام کتاب: روایات عزا
مصنف: علامہ حافظ کفایت حسین نور اللہ مرقدہ
متعلقہ تحریریں:
ناصر آل محمد
ناصر آل محمد (حصّہ دوّم)
امّ البنين مادر ابوالفضل (ع)
جناب سمانہ مغربیہ امام علی نقی (ع) کی والده
جناب سبیکہ (امام محمّد تقی علیہ السلام کی والده)
گوہر شاد آستانہ قدس رضوي كي خادمہ
امام علي بن موسي الرضا (ع) كي والده
ام عبداللہ، فاطمہ ( امام محمد باقر علیہ السلام کی والدہ)
بی بی معصومہ قم سلام اللہ علیہ
شاہ چراغ،سیدنا امامزادہ میراحمد بن امام موسیٰ کاظم