• صارفین کی تعداد :
  • 3990
  • 1/30/2010
  • تاريخ :

شاہ چراغ،سیدنا امامزادہ میراحمد بن امام موسیٰ کاظم ( شیراز آمد)

شاه چراغ

سیدنا میر احمد اس وقت تک ثَامِنُ الْحُجَّۃْ کی خدمت میں رہے جب تک مامون الرشید نے حضرت امام کو مدینہ سے خراسان نہ بلا لیا  ۔امام علی رضا خراسان پہنچے تو مامون نے آپ کو ولی عہد سلطنت مقرر کیا ۔ جب یہ خبر مدینہ منورہ پہنچی تو سیدنا احمد اپنے بھائیوں، بھتیجوں، احباء و عقیدت مندوں کے ساتھ جن کی مجموعی تعداد سات سو تھی مدینہ منورہ سے خراسان روانہ ہوئے اور کویت، بصرہ، اھواز، بوشھر سے ہوتے دروازۂ فارس شیراز کے قریب پہنچے ۔ رستہ سے امام کے عقیدت مند اس قافلہ میں شامل ہوتے گئے اور یہ قافلہ دو ہزار نفوس سے تجاوز کر گیا ۔ شہر شیراز سے تین میل کے فاصلہ پر تھے کہ آپ نے امام علی رضا کی شہادت کی خبر سنی ۔

مامون الرشید عباسی کو خبر ہوئی کہ امامزادگانِ موسیٰ کاظم خراسان تشریف لا رہے ہیں تو اس نے تمام عمال سلطنت اور حکام کو ایک مراسلہ کے ذریعے حکم دیا کہ امیر المومنین سیدنا امام علی کی اولاد میں سے جو آدمی جس جگہ ملے قتل کر دیا جائے ۔ گورنر شیراز، قتلغ خان کو خصوصی حکم دیا اور سادات عظام کے خلاف بھڑکایا۔ قتلغ خان کو اطلاع ہوئی کہ سیدنا میر احمد شیراز سے تین میل کے فاصلہ پر ہیں تو اس نے فوراً چالیس ہزار سپاہ پہ مشتمل ایک لشکر ترتیب دیا اور شہر سے باہر آکر سادات عظام کا رستہ روکا ۔

سیدنا میر احمد نے پرشکوہ عباسی لشکر کے سامنے قیام فرمایا ۔ آپ کو علم ہوا کہ دشمن جنگ اور خونریزی پہ آمادہ ہے تو انہوں نے اپنے انصار و معاونین کو جمع کر کے امام علی رضا کی شہادت کی خبر سنائی اور فرمایا:

’’یہ ظالم ہمیں کبھی بھی مدینہ منورہ واپس نہ جانے دیں گے ۔تم میں سے جو بھی مدینہ منورہ واپس جانا چاہتا ہو جلد چلا جائے ۔میں ان شریر ظالموں سے ضرور جہاد کروں گا ‘‘۔

یہ سن کر آپ کے تمام بھائیوں ، بھتیجوں اور دوستوں نے اعلان کیاکہ ہم آپ کی قیادت میں جہاد کریں گے ۔سیدنا میر احمد نے ان سب کو دعائے خیر دیتے فرمایا ،’’اچھا تو جنگ کی تیاری کر لیجئے ‘‘۔ یہ دو سو دو ہجری کا زمانہ تھا ۔

شدت ضربِ شیر خدا اور ہے :

دوسرے روز طرفین کی صف بندی ہوئی اور کُشن کے مقام پر لڑائی کا بازار گرم ہوا۔ اس روز سیدنا میر احمد اور دوسرے امامزادوں نے میدان کارزار میں بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ اہل شیراز کو حیدرِ کرار یاد آگئے ۔ سیدنا میر احمد کی تلوار، تیغ ذوالفقار کی عکاس تھی تو آپ کے زورِ بازو میںل َافَتیٰ اِلاّعَلی کے نعرے گونج رہے تھے ۔

علی کا گھر بھی وہ گھر ہے کہ اس گھر کا ہر اک بچہ جہاں پیدا ہوا شیر خدا معلوم ہوتا ہے. لشکر اسلام کا دباؤ دیکھ کر جماعتِ اشرار نے میدان چھوڑنا شروع کر دیا۔ دوسرے روز قتلغ خان نے پھر سرکشی کی مگر اہل اسلام نے اسے شکست دے دی ۔ قتلغ خان، فی النار ہونے والوں کی لاشوں کو دفن کرنے کے بعد تیسرے دن پھر حملہ آور ہوا مگر شکست خوردگی سے میدان چھوڑنا پڑا۔ جماعت اشرار نے راہ فرار اختیار کی ۔

سیدنا میر احمد اور دوسرے شہزادگان نے میدان جنگ سے لے کر دو میل دور قلعہ شیراز کی پشت تک دشمنان اسلام کا تعاقب کیا ۔ شیر خدا کے بپھرے شیر، عباسی لومڑیوں پر غضبناک حملے کر رہے تھے۔ جہاں رخ کرتے منافقین کی جماعت متفرق کر دیتے ۔ لڑائی کے آخری روز قلعہ کی پشت تک پہنچ گئے ۔ دشمن شہر میں داخل ہو کر دروازے بند کر کے برجوں پہ چڑھ گئے ۔ سیدنا میر احمد اپنے لشکر کے ہمراہ خیمہ گاہ واپس تشریف لائے ۔ اس روز امام زادوں کو بہت زخم آئے اور لشکر اسلام سے قریبا ًتین سو مجاہدین شہادت رسید ہوئے ۔ اگلے روز سیدنا احمد نے حکم دیا کہ لشکر اسلام شہر کے دروازے کے عقب میں خیمہ زن ہو جائے ۔

اب وقتِ شہادت ہے آیا :

قتلغ خان نے یہ خبر سن کر اپنے افسروں اور شہر کے اکابرین کو جمع کر کے کہا :
’’ہم ان ہاشمیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے البتہ کسی تدبیر سے کامیاب ہو سکتے ہیں ۔ تجویز یہ ہے کہ ہم ہر گزرگاہ پہ فوج کا ایک دستہ پوشیدہ رکھیں اور تھوڑی فوج کے ساتھ شہر کے دروازے پر ان کا مقابلہ کریں ۔ ہم شکست خوردہ شکل میں شہر سے بھاگیں، دروازے کھلے چھوڑ دیں، جب ہاشمی تعاقب کرتے ہوئے شہر میں داخل ہو جائیں گے تو شہر میں متفرق ہو جائیں گے ۔ چونکہ ان کی تعداد تھوڑی ہے ہم شہر میں انہیں آسانی سے قتل کردیں گے ‘‘۔

تمام خارجیوں نے اس رائے کو پسند کیا ۔ دوسرے روز انہوں نے اسی تجویز پہ عمل کیا ۔ امامزادے شہر میں داخل ہو گئے ۔ کفار کی چال کامیاب ہوئی ۔ امامزادگان کو شہر میں جہاں جہاں پایا شہید کردیا گیا ۔ سیدنا میر احمد یکہ و تنہا رہ گئے تو وسط شہر میں تشریف لائے ۔ لوگ آپ کے رعب و جلال سے خوفزدہ تھے اور آپ کا سامنا کرنے کی تاب نہ رکھتے تھے ۔ گروہ در گروہ فرار اختیار کرتے ۔ جب آپ سرزدکے محلہ کے قریب پہنچے تو ایک ستمگر نے عقب سے آپ کے سر مبارک پہ وار کیا ۔ تلوار آپ کی ابروؤں تک اتر آئی ۔ آپ کی پشت پر مزید زخم لگائے گئے جن سے آپ ناتواں ہو گئے ۔

خارجی آپ کو بے بس جان کر آپ کی جانب بڑھنا شروع ہوئے ۔ انتہائی زخمی حالت میں بھی آپ اپنا دفاع فرماتے انہیں دھکیل کر سوق الغازان، بازارِ ریسمان تک لے گئے جہاں آپ کا مشہد مقدس ہے ۔ حضرت کو بہت زخم آچکے تھے۔ ناتوانی غالب ہوئی تو خوارج نے مل کر یلغار کردیا اور ان ظالموں نے آپ کو شہید کر دیا ۔ قدرت خدا کہ آپ کا جسد منور ان ظالمین سے غائب ہو گیا اور کسی کو پتہ نہ چلا کہ آپ کا جسد پاک کہاں ہے ۔ طویل عرصہ تک یہ مشہد و مدفن عوامی نگاہوں سے مخفی رہا۔

                                                                                                                                                            جاری ہے۔

علمی اخبار ڈاٹ کام


متعلقہ تحریریں:

حضرت شاه عبدالعظیم