ناصر آل محمد
بجتا رہے گا بربط کردار تا بہ حشر خاموش ہو بھی جائے اگر ساز زندگی حضرت مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی نے اپنی زندگی میں جو ایمان افروز کارنامے کیے ہیں وہ تاریخی اہمیت کے لحاظ سے اپنی مثال نہیں رکھتے۔ ان کارناموں کا دو لفظوں میں خلاصہ یہ ہے کہ آپ کمال عقیدت کے ساتھ محبت آل محمد کا جذبہ کامل سے کر اٹھے ۔ واقعہ کربلا کے شرکا ء کثیر تعداد قتل کی اور خود سر سے گزر گئے ۔ آپ کا عمل آپ کے کردار قرآن و حدیث کی روشنی میں رونما ہو کر سطح تاریخ پر ابھر ا اور اس نے ایسے گہرے نقوش چھوڑے جو شام ابد تک مٹانے سے نہ مٹیں گے۔ دنیا میں ان کے سوا ایسی کوئی ہستی نہیں ۔ جس نے شریکتہ الحسین حضرت زینب و ام کلثوم علیہما السلام کے دلوں سے رنج و غم کے ان نہ ہٹنے والے بادلوں کو کچھ نہ کچھ چھانٹ دیا ہو ۔ جو واقعہ کربلا کو بچشم خود دیکھنے اور قید شام کی مصیبتوں کے جھیلنے اور بے پردگی کی تکلیف برداشت کرنے سے چھا گئے تھے ۔ یہی وہ ہستی ہے جس نے سر ابن زیاد و ابن سعد و غیر ہما بھیج کر حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی پیشانی مبارک سجدہ شکر میں جھکا دی ۔
ان کا دل اس طرح ٹھنڈا کیا کہ انہوں نے فرط مسرت سے ان مخدارت عصمت وطہارت کو جو محرم ۶۱ ھ سے ربیع الاول ۶۷ ھ تک غم کے لباس میں تھیں سر میں تیل ڈالنے آنکھوں میں سرمہ لگانے اور مناسب کپڑے بدلنے کا حکم دے کر ۹ ربیع الاوّل کو یومِ عید قرار دیا تاریخ شاہد ہے کہ حضرت محمد مصطفےٰ (ص) نے آپ کو ممدوح نگاہ سے دیکھا
حضرت علی علیہ السلام نے اپنی آغوش میں کھلایا ۔
حضرت امام حسن علیہ السلام نے آپ کی مواسات قبول کی ۔
حضرت امام حسین (ع) نے یوم عاشور آپ کو یاد فرمایا ۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے آپ کی مدح کی اور آپ کے ہدایا قبول کئے۔
حضرت امام باقر (ع) نے آپ کے کارنامے کو سراہا ۔ حضرت امام جعفر صادق (ع) نے آپ کو دعائیں دیں ۔ کون نہیں جانتا کہ ہر حیرت انگیز کارنامے میں قدرت کا ہاتھ ہوتا ہے مختار کی اس نے مدد کی جو واقعہ یحییٰ بن زکریا کے سلسلہ میں مدد کرتا رہا ۔ مختار کی اس نے مدد کی جو اپنے وجود ظاہری سے قبل انبیاء کی مدد کرتا رہا (حدیث قدسی) مختار کی اس نے مدد کی ۔ جس نے سلمان کو شیر سے بچایا ۔ مختار کی اس نے مدد کی ۔ جس نے حضرت رسول کریم کو کفار کے فتنہ پردازیوں کے تاثر سے محفوظ و مصوٴن رکھا ۔ قدرت چاہتی تھی کہ واقعہ کربلا کا (فی الجملہ ) دنیا میں بدلالے (تاریخ ابو الفداء جلد ۲ص۱۴۹) جس کی حیثیت عذاب کی ہو (مجالس المومنین ) لہذا ا س نے اسباب فراہم کیے ۔ مختار کے دل میں اہل بیت رسول کی زبردست محبت جاگزین کی ۔ اور وہ صرف جذبہ انتقام لے کر میدان میں بصورت عذاب الہیٰ آئے ۔ اور کامیابی حاصل کرنے کے فوراً بعد جاں بحق تسلیم ہو گئے اور انہیں حصول مقصد کے بعد زیادہ دن حکومت کرنا نصیب نہیں ہوا۔
ابو مخنف بن لوط ابن یحییٰ خزاعی کا بیان ہے ۔ کہ حضرت مختار کو جس قدر کا میابی نصیب ہوئی وہ توفیق الہیٰ سے ہوئی
(کنز الانساب وبحر المصائب ص۱۴طبع بمبئی ۱۳۰۲ ء) اور ان کا یہ کام نہایت نیک تھا جس کے نتیجہ میں وہ شہید ہوئے ۔(تاریخ ابو الفداء جلد۲ ص۱۴۹)۔ اسے نہ بھولنا چاہیئے کہ حضرت امام حسین (ع) کے خون کا بدلہ عام انسانی ہاتھوں سے ناممکن ہے کیونکہ امام حسین (ع) کے خون کی قیمت عقلا ً چند نجس انسانوں کے قتل سے ادا نہیں ہو سکتی خصوصاً ایسی صورت میں جبکہ یزید جیسا ظالم قتل نہ کیا جا سکا ہو اس کے لیے تو ضرورت ہے کہ اصل شرکا ء قتل کے ساتھ ساتھ ان کے فعل پر راضی رہنے والے بھی جو قیامت تک پیدا ہوں گے سب کے سب قتل کیے جائیں اور جہنم میں داخل ہوں۔ من قتل مومنا متعمدافجزاء جھنم خالد فیھا یوں کہ یہ مسلمات سے ہے کہ العامل بالظلم والمعین علیہ و الراضی بہ شرکاء ظلم کرنے والے ظلم کی مدد کرنے والے اور اس کے فعل پر راضی ہو نے والے سب برابر کے شریک ہیں (نور الابصار امام اہلنست علامہ شبلنجی ص۱۴۸طبع مصر) اسی لیے زیارت امام حسین نے فرمایا گیا ہے کہ لعن اللہ من قتلک و شارک فی دمک و اعان علیک و لعن اللہ من بلغہ ذلک فرضی بہ خدا اس پر لعنت کر جس سے تجھے قتل کیا اور اس پر لعنت کرے جو تیرے خون میں شریک ہوا اور اس پر لعنت کرے جس نے تیرے خلاف دشمن کی مدد کی اور اس پر لعنت جسے تیرے قتل کی خبر ہو اور اس پر راضی رہے ۔(تحفہ الزائر علامہ مجلسی طبع ایران ۱۲۶۱ ء ) یہ ظاہر ہے کہ یزید سرشت دنیا کے ہر عہد میں رہے اور اب بھی ہیں اور قیامت تک رہیں گے ۔
یک حسینے نیست تاگردد شہید
ورنہ بسیار اندر در عالم یزید
میں کہتا ہوں کہ دریں صورت جبکہ حسینی خون بہا اور انتقام انسانی دسترس سے باہر ہے ایک سوال پیدا ہو تا ہے اور وہ یہ ہے کہ : حضرت مختار کے قتل کرنے اور ان کے کارناموں کو کیا کہا جائے گا ؟ اس کا جواب میرے نزدیک یہ ہے کہ حضرت مختار نے واقعہ کربلا کے ان شرکاء کو جو دستیاب ہو سکے ۔ ان کے فعل و عمل اور کردار کا عملی بدلا دیا ہے نہ یہ کہ خون حسین کا بدلا لیا ہے ۔
مصنف: مولانا نجم الحسن کراروی
متعلقہ تحریریں:
گوہر شاد آستانہ قدس رضوي كي خادمہ
امام علي بن موسي الرضا (ع) كي والده