• صارفین کی تعداد :
  • 3927
  • 11/21/2010
  • تاريخ :

سکینہ کا باپ کی لاش کو تلاش کرنا

حضرت سکینہ کا  مزار

سکینہ کامیدانِ کربلامیں جاکر اپنے مظلوم باپ کی لاش کو تلاش کرنا اور جنابِ زینب کا میدان میںآ کرسکینہ کولاشِ پدرسے جداکرکے خیموں میں لے جانا۔

بڑا گھر تھا، ایسا آباد گھر چشم فلک نے کبھی نہ دیکھا ہوگا مگر معلوم نہیں اپنے محاورات میں یہی کہاجاتا ہے کہ کسی کی نظر لگ گئی۔ یہ گھر، ایک وقت آیا کہ اس طرح برباد نہ ہوا ہوگا، اس گھر میں خوشیاں ہوئیں مگر وہ خوشیاں کہ جو خدا کی رضامندی کی وجہ سے تھیں، لیکن اس میں جتنے غم ہوئے اور جتنی مصیبتیں اس گھر پر آئیں، وہ دنیا کے کسی اور گھر پر نہیں آئیں۔ میرے بزرگو! یہ گھر مسمار کیا گیا۔ اس کے رہنے والوں کو نکالا گیا۔ اگر ان کا گھر وہی تھا جہاں چلے گئے لیکن جہاں بھی چلے گئے، لوگوں نے ان کو چین سے نہیں رہنے دیا۔ کسی گھر سے جنازئہ رسول نکلا مگر کس طرح سے نکلا؟ اس طرح سے نکلا، کہنے میں بات آتی ہے، زمانے کا اگر گلہ کروں تو بجا ہے۔ وہ رسول جو ہر ایک شخص کے دکھ اور درد میں برابر شریک ہوتا رہا، اگر معلوم ہوا کہ کوئی بھوکا ہے تو خود نہ کھایا، اُس کا پیٹ بھر دیا۔ اگر کوئی بیمار ہوا تو اُس کی مزاج پُرسی کیلئے خود گئے۔ پھر اعتبار سے کہ سردارِ دو عالم، جن کے احسانات کی کوئی انتہا نہ ہو، ان کے بارے میں اگر غیر مذہب کے آدمی سے کہا جائے کہ اس کا جنازہ نکلا، وہ فوراً کہے گا کہ نہ معلوم کتنے لاکھ آدمی ہوں گے لیکن حضور! جنازہ اس طرح نکلا کہ سوائے اپنے چند آدمیوں کے کوئی جنازے میں نہ تھا۔

اس کے بعد یہی گھر تھا کہ دو تین دن کے بعد جب سیدہ قبر پر پہنچی ہیں اپنے باپ کی، تو یہ کہتے ہوئے پہنچی ہیں کہ بابا! اب وہ فاطمہ نہیں ہوں جو آپ کے زمانے میں تھی۔ کاش! کوئی اتنا کہہ دیتا کہ فاطمہ ! تمہارے باپ کا انتقال ہوگیا، ہمیں رنج ہے۔ کاش! فاطمہ کے دروازے پر آکر لوگ یہ کہہ دیتے کہ فاطمہ ! تمہارے باپ کے اُٹھ جانے کا ہمیں بہت افسوس ہے۔ ذرا بتلائیے تو سہی، جس کی حالت یکا یک اتنی منقلب ہوگئی ہو، اُس پر کیا کچھ گزری ہوگی؟

کیا عرض کروں؟ جانوروں پر اثر پڑا، طیور پراثر ہوا، وہ اونٹنی جس پر جنابِ رسالت مآب سوار ہوا کرتے تھے، آپ کے انتقال کے بعد اُس نے کھانا پینا چھوڑ دیا۔ بہت کچھ کوشش کی گئی لیکن اُس نے بالکل کچھ نہ کھایا۔ آخر کب تک ایک جانور بغیر کچھ کھائے پئے رہ سکتا ہے؟ دو دن کے بعد اس سے کھڑا ہونا مشکل ہوگیا۔ ایک مرتبہ اُس نے اپنی رسی تڑوائی اور سیدھی چلی جنابِ رسالتمآب کی قبر کی طرف۔ قبر کے پاس جاکر اُس نے اپنا رخسار رکھ دیا اور لوگوں نے دیکھا کہ اُس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ لوگ گئے کہ وہاں سے ہٹائیں مگر وہ نہ ہٹی۔ مجبور ہوکر لوگ آئے جنابِ فاطمہ کے دروازے پر، سیده  عالم سلام اللہ علیہا ! آپ کے والد کی اونٹنی قبر پر پہنچ گئی ہے اور وہاں سے اُٹھتی نہیں۔ جنابِ سیدہ چادر اوڑھ کر نکلیں، قبر پر پہنچیں۔ جب اُس نے دیکھا کہ شہزادی آگئیں، آپ نے اشارہ کیا، فوراً اُٹھ کھڑی ہوئی، اپنی جگہ واپس پہنچی۔ جنابِ سیدہ اپنے حجرے میں آگئیںَ تھوڑی دیر کے بعد یہ اونٹنی پھر وہیں پہنچ گئی یعنی ایک بیقراری کا عالم تھا۔ آخر یہ ہوا کہ کئی مرتبہ اسی طرح سے گئی اور جنابِ سیدہ آئیں۔ بعض لوگوں نے چاہا کہ اسے ذبح کر ڈالیں لیکن جنابِ سیدہ نے فرمایا: میں اپنے باپ کی اونٹنی کو، جو اتنی محبت کرتی ہے میرے باپ سے، کبھی بھی ذبح کی تکلیف دینا گوارہ نہیں کروں گی۔ وہ اسی طرح مر گئی، اسے دفن کروایا گیا۔

موٴمنین کرام! دیکھا آپ نے کہ جنابِ رسالت مآب کے اُٹھ جانے کا جانوروں پر یہ اثر پڑا تھا۔ اب آپ بتلائیے کہ بیٹی پر کیا اثر ہوگا اور پھر اس کے ساتھ ساتھ جب یہ عالم دیکھا کہ لوگ اتنے پھر گئے کہ کسی نے آ کر دروازے پر یہ بھی نہ پوچھا کہ فاطمہ ! آپ کس حال میں ہیں اور اگر آئے بھی تو کس مشکل میں آئے، اس کا میں کیا ذکر کروںآ پ کے سامنے؟جنابِ سیدہ گھر میں بیٹھ کر فریادکررہی تھیں کہ بابا! ذرا دیکھئے تو سہی، بابا دنیا والوں نے آپ کی وفات کے بعد ہم سے کس طرح منہ موڑ لیا ہے؟ آنحضور کے بعد معظمہ بی بی کا سارا وقت روتے اور ماتم کرتے ہوئے گزرا۔ اس کے بعد اس گھر سے سیدہ کا جنازہ نکلا اور وہ نکلا چند آدمیوں کے سہارے۔ اس کے بعد سیدہ کے فرزند امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کا جنازہ نکلا جس پر تیر برسے۔ آخر میں ایک جنازہ گھر سے تو نہیں لیکن اس گھر میں رہنے والے کا جنازہ یوں نکلا نکلا کیا؟ اُٹھانے والا ہوتا تو نکلتا! کتابوں میں لکھا ہے تیروں نے جنازہ اُٹھایا ۔

جنابِ رسالتمآب کا انتقال ہوا تو فاطمہ زہرا گھر میں تھیں،امیر الموٴمنین موجود تھے، حسنین شریفین موجود تھے ،تسلی دینے کیلئے بنی ہاشم کے کچھ لوگ موجود تھے۔حسین جب شہید ہوئے تو اُن کی بیٹی اور بہن کو کوئی تسلی دینے والا نہ تھا۔ تسلی کو تو جانے دیجئے، ایک چھوٹی سی بچی تھی، وہ اگر اپنے باپ کو یاد کرکے روئی، حاضرین مجلس! کونسا گناہ ہوگیا لیکن اس کو اس طرح تسلی دی گئی کہ شمر نے طمانچے مارے۔ ایک مرتبہ یہ بچی پہنچ گئی جہاں امام حسین کی لاش پڑی تھی،ہائے بیٹی نے کس طرح باپ کی لاش کو دیکھا؟ جنابِ زینب کو معلوم ہوگیا کہ سکینہ کہیں چلی گئی ہیں تو جنابِ زینب و اُمّ کلثوم دونوں بہنیں مقتل کی طرف چل پڑیں۔ رات کا وقت ہے، چاروں طرف اُداسی کا عالم ہے۔ بی بی نے خیال کیا کہ جس وقت حسین چلے تھے، آخری رخصت کے بعد تو سکینہ دروازے پر کھڑی دیکھ رہی تھی، اُسی طرف ہی گئی ہوگی۔ جب آپ وہاں پہنچیں تو وہاں سکینہ کے رونے کی آواز آئی۔ آواز کی طرف چلیں تو وہی نشیب جس میں حسین شہید ہوئے تھے، وہاں یہ بچی باپ کی کٹی ہوئی گردن سے منہ ملائے کہہ رہی تھی: بابا! آپ کو کس نے شہید کیا؟ مجھ کو کس نے یتیم بنادیا؟ جیسے ہی جنابِ زینب وہاں پہنچیں، گود میں اُٹھایا، تسلی دیتی ہوئی لارہی تھیں کہ پوچھا: بیٹی! تم نے کس طرح پہچان لیا کہ یہ تمہارے بابا کی لاش ہے؟ عرض کیا: پھوپھی اماں! میں رو رو کر کہہ رہی تھی، بابا! آپ کدھر ہیں، اُدھر سے آواز آئی، بیٹی! اِدھر آجا، تیرا باپ اِدھر ہے۔

نام کتاب:  روایات عزا

 مصنف:  علامہ حافظ کفایت حسین نور اللہ مرقدہ


متعلقہ تحریریں:

ناصر آل محمد

ناصر آل محمد (حصّہ دوّم)

امّ البنين مادر ابوالفضل (ع)

جناب سمانہ مغربیہ امام علی نقی (ع) کی والده

جناب سبیکہ (امام محمّد تقی علیہ السلام کی والده)

گوہر شاد آستانہ قدس رضوي كي خادمہ

امام علي بن موسي الرضا (ع) كي والده

ام عبداللہ، فاطمہ  ( امام محمد باقر علیہ السلام کی والدہ)

بی بی معصومہ قم سلام اللہ علیہ

شاہ چراغ،سیدنا امامزادہ میراحمد بن امام موسیٰ کاظم