صفحه اصلی تبیان
شبکه اجتماعی
مشاوره
آموزش
فیلم
صوت
تصاویر
حوزه
کتابخانه
دانلود
وبلاگ
فروشگاه اینترنتی
سوموار 25 نومبر 2024
فارسي
العربیة
اردو
Türkçe
Русский
English
Français
تعارفی نام :
پاسورڈ :
تلاش کریں :
:::
اسلام
قرآن کریم
صحیفه سجادیه
نهج البلاغه
مفاتیح الجنان
انقلاب ایران
مسلمان خاندان
رساله علماء
سروسز
صحت و تندرستی
مناسبتیں
آڈیو ویڈیو
اصلی صفحہ
>
اردو ادب و ثقافت
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
آگ کا دریا
یہ قراۃ العین حیدر کا شہرہ آفاق ناول ہے اور اس ناول کو ...اردو ادب کے چند بہترین ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
پطرس بخاری بحیثیت مزاح نگار
لکھنوٴ یونیورسٹی میں داخل ہوئے ایک مہینہ گزرا تھا کہ ایک دن لائبریری میں مشفق وصی رضا نے میرے ہاتھ میں ڈکنس کی ایک ناول دیکھ کر کہا
مرزا غالب
فکر انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا ہے پر مرغ تخیل کی رسائی تاکجا ...
ہمالہ
اے ہمالہ ! اے فصیل کشور ہندوستان/ چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسمان
اردو زبان کے مختلف نام اور مراحل
اردو ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی لشکر یا فوج کے ہیں ۔ 1637ء کے بعد جو شاہی لشکر دہلی میں مقیم رہا وہ اردوۓ معلی کہلاتا تھا ۔ اس لۓ اس کو عام طور پر لشکری زبان ...بھی کہا جاتا تھا
آج یوں موسم نے دی جشن محبت کی خبر
آج یوں موسم نے دی جشن محبت کی خبر / پھوٹ کر رونے لگے ہیں ، میں محبت اور تم
اردو کے پہلے ناول مراۃ العروس پر ایک نظر
پروفیسر افتخار احمد صدیقی نذیر احمد کی ناول نگاری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ نذیر احمد کے فن کی ایک خاص خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ناولوں میں مسلمانوں کی معاشرتی زندگی کی بالکل سچی تصویر کشی کی ہے۔
آشيانہ
مہندي آخر آدمي تھا، جو رات آشيانہ ميں لوٹا، رندھير اس رات کو گھر نہيں آيا تھا، وہ اکثر رات کو گھر نہيں آتا تھا
آخری کوشش
صحافی و افسانہ نگار لکھنو میں پیدا ہوئے۔ فرنگی محل کے عربی مدرسے سے سند حاصل کی۔ علی گڑھ سے بی۔اے کیا۔ ابتدا میں ترقی پسند ادب کی تحریک سے وابستہ رہے۔‘
اپنے دکھ مجھے دے دو
شادي کي رات بالکل وہ نہ ہوا جو مدن نے سوچا تھا، جب چکلي بھابھي نے پھسلا کر مدن کو بيچ والے کمرے ميں دھکيل ديا تو اندر سامنے شالوں ميں لپٹي اندھيرے
لوح قلم
ہم پرورشِ لوح قلم کرتے رہیں گے / جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
ایک رہگزر پر
وہ جس کی دید میں لاکھوں مسرتیں پنہاں / وہ حسن جس کی تمنا میں جنتیں پنہاں
توبہ شکن
بي بي رو رو کر ہلکان ہو رہي تھي۔ آنسو بے روک ٹوک گالوں پر نکل کھڑے ہوئے تھے۔ مجھے کوئي خوشي راس نہیں آتي ۔ ميرا نصيب ہي ايسا ہے۔ جو خوشي ملتي ہے ايسي ملتي ہے
آپا
جب کبھي بيٹھے بٹھائے مجھے آپا کي ياد آتي ہے تو ميري آنکھوں کے آگے ايک چھوٹا سا بلوريں ديا آجاتا ہے جو مدھم ہوا سے جل رہا ہو۔
آنندی
بلديہ کا اجلاس زوروں پر تھا، ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور خلاف معمول ايک ممبر بھي غير حاضر نہ تھا، بلديہ کے زير بحث مسئلہ يہ تھا کہ زنان بازاري کو شہر بدر کر دياجائے،
میں مرمٹا تو وہ سمجھا یہ انتہا تھی مری
میں مرمٹا تو وہ سمجھا یہ انتہا تھی مری/ اسے خبر ہی نہ تھی ، خاک کیمیا تھی مری
کل نالۂ قمری کی صدا تک نہیں آئی
کل نالۂ قمری کی صدا تک نہیں آئی/ کیا ماتمِ گل تھا کہ صبا تک نہیں آئی
جو چل سکو تو کوئی ایسی چال چل جانا
جو چل سکو تو کوئی ایسی چال چل جانا / مجھے گماں بھی نہ ہو اور تم بدل جانا
ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی/ برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی
محرومِ خواب دیدۂ حیراں نہ تھا کبھی
محرومِ خواب دیدۂ حیراں نہ تھا کبھی / تیرا یہ رنگ اے شبِ ہجراں نہ تھا کبھی
مایوس نہ ہو اداس راہی
مایوس نہ ہو اداس راہی / پھر آۓ گا دورِ صبح گاہی
کیا دن مجھے عشق نے دکھاۓ
کیا دن مجھے عشق نے دکھاۓ / اِک بار جو آۓ پھر نہ آۓ
رونقیں تھیں جہاں میں کیا کیا کچھ
رونقیں تھیں جہاں میں کیا کیا کچھ / لوگ تھے رفتگاں میں کیا کیا کچھ
حاصلِ عشق ترا حُسنِ پشیماں ہی سہی
حاصلِ عشق ترا حُسنِ پشیماں ہی سہی / میری حسرت تری صورت سے نمایاں ہی سہی
کل پرسش احوال جو کی یار نے میرے
کل پرسش احوال جو کی یار نے میرے/ کس رشک سے دیکھا مجھے غم خوار نے میرے
کسی سے دل کی حکایت کبھی کہا نہیں کی
کسی سے دل کی حکایت کبھی کہا نہیں کی / وگرنہ زندگی ہم نے بھی کیا سے کیا نہیں کی
جو بھی قاصد تھا وہ غیروں کے گھروں تک پہنچا
جو بھی قاصد تھا وہ غیروں کے گھروں تک پہنچا/ کوئی نامہ نہ ترے در بدروں تک پہنچا
نہ منزلوں کو نہ ہم رہ گزر کو دیکھتے ہیں
نہ منزلوں کو نہ ہم رہ گزر کو دیکھتے ہیں/ عجب سفر ہے کہ بس ہمسفر کو دیکھتے ہیں
معبود
بہت حسین ہیں تیری عقیدتوں کے گلاب / حسین تر ہے مگر ہر گلِ خیال ترا
کل ہم نے بزمِ یار میں کیا کیا شراب پی
کل ہم نے بزمِ یار میں کیا کیا شراب پی / صحرا کی تشنگی تھی سو دریا شراب پی
انتظار حسین
انتظار حسین 7 دسمبر، 1925ء کو میرٹھ کے ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے۔ میرٹھ کالج سے بی اے کیا اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کرنے کے بعد صحافت کے شعبے سے وابستہ ہو گئے۔ پہلا افسانوی مجموعہ ’’گلی کوچے ‘‘ 1953ء میں شائع ہوا۔
گل رنگیں
تو شناساۓ خراش عقدۂ مشکل نہیں / اے گل رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیں
احمد ندیم قاسمی کا افسانہ
یوں تو احمد ندیم قاسمی مختلف اصناف ادب کی تحقیق اور تخلیق میں مصروف رہے جن میں نظم،غزل،افسانہ،کالم نویسی،بچو ں کی کتابیں،تراجم،تنقید اور ڈرامے وغیرہ شامل ہیں ۔لیکن زیر نظر مضمون میں صرف ان کے فن ِ افسانہ نگاری پر بحث ہو گی۔
احمد ندیم قاسمی ، ترقی پسند تحریک کا آخری سپہ سالار
احمد ندیم قاسمی کی کوئی کتاب جس نے ترقی پسندی کی ابتداسے لے کرما بعد جدیدیت تک کا سفر پورے سلیقے اور شان سے کیا اورعصری حسیت سے ہم آہنگی کے ذریعہ ادب و صحافت سے قاری کے رشتے کو مستقل استوار کرتے رہنے کو ترجیح دی
ماسی گُل بانو
اُس کے قدموں کی آواز بلکل غیر متوازن تھی، مگر اُس کے عدم توازن میں بھی بڑا توازن تھا۔ آخر بے آہنگی کا تسلسل بھی تو ایک آہنگ رکھتا ہے۔ سو اُس کے قدموں کی چاپ ہی سے سب سمجھ جاتے تھے کہ ماسی گُل بانو آرہی ہے
اردو ہے جس کا نام
UNI نے ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ آج دنیا بھر میں بولی جانے والی تقریباً سات ہزار زبانوں میں سے نصف زبانوں کے وجود کو شدید خطرات لاحق ہیں
اردو زبان کا نام اور مجمل تاریخ
برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحوں کا داخلہ اس سرزمین کے لۓ ایک انقلابی پیغام لایا، جس نے یہاں کے باشندوں کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو متاثر اور نئی خوبیوں سے آشنا کیا ۔
ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کی رحلت
برصغیر پاک و ہند کے ممتاز ادیب،دانشور،نقاد، ماہر لسانیات ڈاکٹر ابوالخیرکشفی 15مئی کو 76سال کی عمر میں مختصر علالت کے بعد خالق حقیقی سے جا ملے
پروین شاکر
پروین شاکر 24 نومبر 1954 ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں
اگر کج رَو ہیں انجم، آسماں تیرا ہے یا میرا؟
اگر کج رَو ہیں انجم، آسماں تیرا ہے یا میرا؟/ مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو، جہاں تیرا ہے یا میرا؟/
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر / کرتے ہیں خطاب آخر، اٹھتے ہیں حجاب آخر /
عصرِ حاضر ملک الموت ہے، تیرا جس نے
عصر حاضر ملک الموت ہے، تیرا جس نے / قبض کی روح تری دے کے تجھے فکر معاش /
بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے
بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے/ یہاں ساقی نہیں پیدا، وہاں بے ذوق ہے صہبا /
ایک پہاڑ اور گلہری
کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے / تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے /
کھول دو
امرتسر سے اسپيشل ٹرين دوپہر دو بجے کو چلي آٹھ گھنٹوں کے بعد مغل پورہ پہنچي، راستے ميں کئي آدمي مارے گئے، متعد زخمي اور کچھ ادھر ادھر بھٹک گئے۔
دلِ بیدار فاروقی، دل بیدار کراری
دلِ بیدار فاروقی، دل بیدار کراری/ مس آدم کے حق میں کیمیا ہے دل کی بیداری /
اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ
اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ/ ٹوٹا ہے ایشیا میں سحر فرنگیانہ
اختر صبح
ستارہ صبح کا روتا تھا اور یہ کہتا تھا/ ملی نگاہ مگر فرصتِ نظر نہ ملی
اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد
اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد/ نہیں ہے داد کا طالب یہ بندۂ آزاد!
اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں
اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
اصلی صفحہ
ہمارے بارے میں
رابطہ کریں
آپ کی راۓ
سائٹ کا نقشہ
صارفین کی تعداد
کل تعداد
آن لائن