کل نالۂ قمری کی صدا تک نہیں آئی
کل نالۂ قمری کی صدا تک نہیں آئی |
کیا ماتمِ گل تھا کہ صبا تک نہیں آئی |
آدابِ خرابات کا کیا ذکر یہاں تو |
رندوں کو بہکنے کی ادا تک نہیں آئی |
تجھ ایسے مسیحا کے تغافل کا گلہ کیا |
ہم جیسوں کی پرسش کو قضا تک نہیں آئی |
جلتے رہے بیغ صرفہ ، چراغوں کی طرح ہم |
تو کیا، ترے کوچے کی ہوا تک نہیں آئی |
کس جادہ سے گزرا ہے مگر قافلۂ عمر |
آوازِ سگاں ، بانگِ درا تک نہیں آئی |
اس در پہ یہ عالم ہوا دل کا کہ لبوں پر |
کیا حرفِ تمنا کہ دعا تک نہیں آئی |
دعوائے وفا پر بھی طلب دادِ وفا کی |
اے کشتۂ غم تجھ کو حیا تک نہیں آئی |
جو کچھ ہو فراز اپنے تئیں ، یار کے آگے |
اس سے تو کوئی بات بنا تک نہیں ہوئی |
شاعر کا نام : احمد فراز
پیشکش : شعبہ تحریرو پیشکش تبیان