ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کی رحلت
برصغیر پاک و ہند کے ممتاز ادیب،دانشور،نقاد، ماہر لسانیات ڈاکٹر ابوالخیرکشفی 15مئی کو 76سال کی عمر میں مختصر علالت کے بعد خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اپنی پوری زندگی علم و ادب کے لئے وقف رکھنے والے اس راسخ العقیدہ مسلمان، سچے اور شائستہ انسان نے سوگواروں میں ایک بیوہ ایک فرزند اور چار بیٹیوں کے علاوہ ہزاروں شاگرد اور عقید ت مند چھوڑے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد باکمال اساتذہ، مصنفین کی ہے۔25جون 1932ء کو کانپور میں ممتاز شاعر و قلمکار سید ابو محمد ثاقب کے گھر پیدا ہونے والے ابوالخیر کشفی نے جامعہ کراچی سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کیا اور 1959ء سے 1994ء تک 35 سال اسی مادر عملی میں بطور مدرس خدمات انجام دیتے ہوئے گزارے ان کے کارہائے نمایاں پر جامعہ کراچی نے اعزازی طور پر ڈی لٹ کی ڈگری بھی تفویض کی۔ جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کے چیرمین کی حیثیت سے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ اپنے اسلاف کی تنقیدی روایات کو آگے بڑھاتے، تحقیق پر توجہ مرکوز کرتے اور مترجم کی حیثیت سے شناخت بناتے ہوئے دو درجن سے زائد کتابیں تصنیف کیں جن میں سے ایک پر داؤد ادبی انعام ملا۔ نعت نگاری پر وقیع کام کیا۔ شاعری کی ۔ سفر نامے لکھے ، خاکہ نگاری کی۔ ان کے ہزاروں تحقیقی، تنقیدی، سوانحی، ادبی مضامین مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوئے ہیں تحریر کے ساتھ تقریر کے غازی اور انتہائی شستہ انداز کلام کی حامل شخصیت تھے۔ ایسے صاحب علم کا دنیا سے اٹھ جانا ایک بڑا سانحہ ہے۔ ادب و تحقیق کے میدان میں پیدا ہونے والا یہ خلا طویل عرصے تک پُر ہوتا ممکن نظر نہیں آتا۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ اس دل آویز شخصیت کی بلند قامتی کا احساس بڑھتا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے، ان کے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے (آمین)۔
متعلقہ تحریریں:
سیاسی و سماجی تحریریں
مذهبی و معاشرتی کالم
تاریخی معلومات