آنندی
بلديہ کا اجلاس زوروں پر تھا، ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور خلاف معمول ايک ممبر بھي غير حاضر نہ تھا، بلديہ کے زير بحث مسئلہ يہ تھا کہ زنان بازاري کو شہر بدر کر دياجائے، کيوں کہ ان کا وجود انسانيت، شرافت اور تہذيب کے دامن پر بد نما داغ ہے۔
بلديہ کے ايک بھاري بھر کم رکن جو ملک و قوم کے سچے خير خواہ مانے جاتے تھے نہايت فصاحت سے تقرير کر رہے تھے “ اور پھر حضرات آپ يہ بھي جانتے ہیں کہ یہ بازار شہر کے وسط میں واقع ہے چنانچہ ہر شريف آدمي کو چار وناچار اس بازار سے گزرنا پڑتا ہے، علاوہ ازيں شرفا کي پاک دامن بہو بيٹياں بھی اس بازار کی تجارتي اہميت کي وجہ سے يہاں آنے اور خريد و فروخت کرنے پر مجبور ہيں ، صاحبان جب يہ شريف زادياں ان آبرو باختہ اور نيم عرياں بيواؤں کے بناؤ سنگھار کو ديکھتي ہيں تو قدرتي طور پر ان کے دل ميں بھي آرائش و دل ربائي کي نئي نئي امنگيں اور ولولے پيدا ہوتے ہيں اور اپنے غريب شوہروں سے طرح طرح کے غازوں لوِنڈروں زرق برق ساڑيوں اور قيمتي زيوروں کي فرمائشيں کرنے لگتي ہيں نتيجہ يہ ہوتا ہے کہ ان کا پر مسرت گھر ان کا راحت کدہ ہميشہ کيلئے جہنم کا نمونہ بن جاتا ہے۔
اور صاحبان پھر آپ يہ بھي خيال فرمائيے کہ نونہالان قوم جو درس گاہوں ميں تعليم پارہے ہيں، اور جن کي آئندہ ترقيوں سے قوم کي اميديں وابستہ ہيں اور قياس کہتا ہے کہ ايک نہ ايک دن قوم کي کشتي کو بھنور سے نکالنے کا سہرا ان ہي کے سر بندھے گا، انہيں بھي صبح و شام اسي بازار سے ہو کر جانا پڑتا ہے، يہ قحبائيں ہر وقت بارہ ابھرن سولہ سنگھار کئے ہر راہرو پر بےحجابانہ نگاہ و مژگاں کے تيروسنان برساقي رہتی ہیں، جواني کے نشے ميں سر شار سودوزياں سے بے پرواہ نونہالانِ قوم اپنے جذبات و خيالات اور اپني اعلي سيرت کو مصيبت کے مسموم اثرات سے محفوظ رکھ سکتے ہيں؟ صاحبان؟ کيا ان کا حسن زاہد شکن نونہالان قوم کو جادہ مستقيم سے بھٹکا کر ان کے دل ميں گناہ کي پر اسرار لذتوں کي تشنگي پيدا کر کے ايک بے کلي ايک اضطراب ايک ہيجان برپا نہ کرديتا ہوگا۔۔۔۔۔؟“
اسي موضوع پر ايک رکن بلديہ جو کسي زمانے ميں مدرس رہ چکے تھے اور اعداد شمار رکھتے تھے بول اٹھے۔
صاحبان واضع رہے کہ امتحانوں ميں ناکام رہنے والے طلبا کا تناسب پچھلے سال کي نسبت ڈيوڑھا سا ہوگيا ہے۔
ايک رکن جو چشمہ لگائے ہوئے تھے اور ايک ہفتہ وار اخبار کے مدير اعزازي تھے تقرير کرتے ہوئے حضرات ہمارے شہر سے روز بروز غيرت، شرافت، مردانگي، نکوکاري اور پرہيزگاري اٹھتي جارہي ہے، اس کے بجائے بے غيرتي، نامردي، بزدلي، بدمعاشي، چوري اور جعل سازي کا دور دورہ ہوتا ہے، منشيات کا استعمال بہت بڑھ گيا ہے، قتل و غارت، خود کشي اور ديواليہ نکلنے کے وارداتيں بڑھ رہي ہيں، اس کا سبب محض ان زنان بازاري کا ناپاک وجود ہے، کيوں کہ ہمارے بھولے بھالے شہري ان کي زلف گرہ گير کے اسير ہو کر ہوش و خرد کھو بيٹھتےہيں، اور ان کے ہار سنگار تک رسائي حاصل کرنے کيلئے زيادہ سے زيادہ قيمت ادا کرنے کيلئے ہر جائز و ناجائز طريق سے زر حاصل کرنے کی سعی میں نہايت قبيح افعال کا ارتکاب کر بيٹھتے ہيں نتيجہ يہ ہوتا ہے، کہ يا تو وہ جان عزيز ہي سے ہاتھ دھو بيٹھتے ہيں اور ياجيل خانوں ميں پڑے سڑتے ہيں۔
ايک پنشن يافتہ معمر رکن جو ايک وسيع خاندان کے سر پرست تھے اور دنيا کا سردو گرم ديکھ چکے تھے اور اب کش مکش حيات سے تھک کر باقي ماندہ عمر سستانے اور اپنے اہل و عيال کو اپنے سائے ميں پنپتا ہوا ديکھنے کے متمني تھے تقرير کرنے اٹھے، ان کي آواز لرزتي ہوئي اور لہجہ فرياد کا انداز ليے ہوئے تھا، بولے صاحبان رات بھر ان لوگوں کے طبلے کي تھاپ ان کی گلے بازياں ان کے عشاق کي دھينگا مشتي، گالي گلوچ ، شور و غل ہاہاہاہاہاہاہوہوہوہو سن کر آس پاس کے رہنے والے شرفا کے کان پک گئے ہيں، ناک ميں جان آگئي ہے رات کي نيند حرام ہےتو دن کا چين مفقود علاوہ ازيں ان کے قرب سے ہماري بہو، بيٹیوں کے اخلاق پر جو برا اثر پڑتا ہے اس کا اندازہ ہر صاحب اولاد کو ہو سکتا ہے، آخري فقرہ کہتے کہتے ان کي آواز بھرا گئي اور وہ اس سےزيادہ کچھ نہ کہہ سکے سب اراکين بلديہ کو ان سے ہمدردي تھي، کيوں کہ بدقسمتي سے انکا قديمي مکان اس بازار حسن کے عين وسط ميں واقع تھا۔
ان کےبعد ايک رکن بلديہ نےجو پراني تہذيب کے علم بردار تھے اور اسے اولاد سے زيادہ عزيز رکھتے تھے تقرير کرتے ہوئے کہا۔
حضرات باہرسے جو سياح اور ہمارے احباب اس مشہور اور تاريخ شہر کو ديکھنے آتے ہيں جب وہ اس بازار سے گزرتے اور اس کے متعلق استفسار کرتے ہيں تو يقين کیجیے کہ ہم پر گھڑوں پاني پڑ جاتا ہے۔
اب صدر بلديہ تقرير کرنے اٹھے گو قد ٹھنگنا تھا اور ہاتھ پاؤں چھوٹے چھوٹے تھے مگر سر بڑا تھا جس کي وجہ سے برد بار آدمي معلوم ہوتے تھے۔ لہجہ ميں حد درجہ متانت تھي بولے حضرات ميں اس امر ميں قطعي طور پر آپ سے متفق ہوں کہ اس طبقہ کا وجود ہمارے شہر اور ہمارے تہذيب و تمدن کيلئے باعثِ صد عار ہے ليکن مشکل يہ ہے اس کا تدارک کس طرح کيا جائے۔ اگر ان لوگوں کو مجبور کيا جائے کہ يہ اپنا ذليل پيشہ چھوڑديں تو سوال پيدا ہوتا ہے کہ يہ لوگ کھائيں گے کہاں سے؟
ايک صاحب بول اُٹھے يہ عورتيں شادي کيوں نہيں کرليتں؟
اس پر ايک طويل قہقہہ پڑا اور ہال کي ماتمي فضا ميں يک بارگي شگفتگي کے آثار پيدا ہو گئے۔ جب اجلاس ميں خاموشي ہوئي تو صاحب صدر بولے حضرات يہ تجويز ہزار بار ان لوگوں کے سامنے پيش کي جاچکي ہے۔ اس کا ان کي طرف سے يہ جواب ديا جاتا ہے۔ کہ آسودہ اور عزت دار خانداني، حرمت و ناموس کے خيال سے انہيں اپنے گھروں ميں نہ گھسنے ديں گے اور مفلس اور ادنٰي طبقے کے لوگوں کو جو محض ان کي دولت کيلئے ان سے شادي کرنے پر آمادہ ہوں گے يہ عورتيں خود منہ نہيں لگائيں گي۔
اس پر ايک صاحب بولے بلديہ کو ان کے نجي معاملوں ميں پڑنے کي ضرورت نہيں۔ بلديہ کے سامنے تو يہ مسئلہ ہے کہ يہ لوگ چاہے جہنم ميں جائيں مگر اس شہر کو خالي کرديں۔
صدر نے کہا صاحبان يہ بھي آسان کام نہيں ہے، ان کي تعداد دس بيس نہيں سينکڑوں پر پہنچتي ہے اور پھر ان ميں سے بہت سی عورتوں کے ذاتي مکانات بھي ہيں۔
يہ مسئلہ کوئي مہینہ بھر زير بحث رہا اور با لاآخر تمام اراکين کي اتفاق رائے سے يہ امر قرار پايا کہ زنان بازاري کے مملوکہ مکانوں کو خريد لينا چاہئيے اور انکو رہنے کيلئے شہر سے کافي دور کوئي الگ تھلگ علاقہ ديا جائے، ان عورتون نے بلديہ کے اس فيصلہ کے خلاف سخت احتجاج کيا، بعض نے نافرماني کرکے بھاري جرمانے اور قيديں تک بھگتيں۔ مگر بلديہ کي مرضي کے آگے کوئي پيش نہ چل سکي اور وہ نا چار صبر کرکے رہ گئيں۔
اس کے بعد ايک عرصہ تک ان زنان بازاري کے مملوکہ مکانوں کي فہرستيں اور نقشے تيار ہوئے اور مکانوں کے گاہک پيدا کئے جاتے رہے۔ پيشتر مکانوں کي بذريعہ نيلامي فروخت کرنے کا فيصلہ کيا گيا۔ ان عورتوں کو چھ مہينے تک شہر ميں اپنے پرانے مکانوں ہي ميں رہنے کي اجازت دے دي گئي تاکہ اس عرصہ ميں وہ نئے علاقہ ميں مکان بنواسکيں۔
ان عورتوں کيلئے جو علاقہ مختص کيا گیا وہ شہر سے چھ کوس دور تھا، پانچ کوس تک سڑک جاتي تھي اور اسکے آگے کوس بھر کا کچا رستہ تھا، کسي زمانے ميں وہاں کوئي بستي ہوگي مگر اب تو کھنڈروں کے سوا کچھ نہ رہا تھا۔ جن ميں سانپوں اور چمگادڑوں کے مسکن تھے اور دن دھاڑے اُلو بولتے تھے، اس علاقے کے نواح ميں کچے گھروندوں والے کئي چھوٹے گاؤں تھے مگر کسي کا فاصلہ بھي يہاں سے دو ڈھائي ميل سے کم نہ تھا۔ ان گاؤں کے بسنے والے کسان دن کے وقت کھيتي باڑي کرتے يا يوں ہي پھرتے پھراتے ادھر نکل آتے تو نکل آتے ورنہ عام طور پر اس شہر خموشاں ميں آدم زاد کي صورت نظر نہ آتي تھي، بعض اوقات روز روشن ہي ميں گيدڑ اس علاقے ميں پھرتے ديکھے گئے تھے۔
پانسو سے کچھ اوپر بیسواؤں ميں سے صرف چودہ ايسی تھي جو اپنے عشاق کي وابستگي يا خود اپني دل بستگي يا کسي اور وجہ سے شہر کے قريب آزادانہ رہنے پر مجبور تھیں۔ اور اپنے دولت مند چاہنے والوں کي مستقل مالي سر پرستي کے بھروسے بادل ناخواستہ اسي شہر کے ہوٹلوں کو اپنا مسکن بنائيں گي۔ باقی ماندہ بظاہر پارسائي کا جامہ پہن کر شہر کے شريف محلوں کے کونوں کھدروں ميں جا چُھپيں گی يا پھر اس شہر کو چھوڑ ديں گي۔
يہ چودہ بيسوائيں اچھي خاصي مال دار تھيں، اس شہر ميں انکے جو مملوکہ مکان بِکے ان کے دام انہيں اچھے مل گئے اور اس علاقے ميں زمين کي قيمت برائے نام تھي اور سب سے بڑھ کر يہ کہ ان کے ملنے والے دل و جان سے ان کي مالي امداد کرنے کيلئے تيار تھے، چنانچہ انہوں نے اس علاقے ميں جي کھول کر بڑے عالي شان مکان بنوانے کي ٹھان لي، ايک اونچی اور ہوادار جگہ ٹوٹي پھوٹي قبروں سے ہٹ کر تھي منتخب کي گئي زمين کے قطعے صاف کرائے اور چابکدست نقشہ نویسوں سے مکان کے نقشے بنوائے گئے اور چند ہي روز ميں تعمير کا کام شروع ہوگيا۔
دن بھر اينٹ، مٹي، چونا، شہتير، گارڈر اور دوسرا عمارتي سامان لاريوں، چھکڑوں، خچروں، گدھوں، اور انسانوں پر لد کر اس بستي ميں آتا اور منشي حساب کتاب کي کاپياں بغلوں ميں دبائے انہيں گنواتے اور کاپيوں ميں درج کرتے مير عمارت معماروں کو کام کے متعلق ہدايت ديتے، معمار مزدوروں کو ڈانٹتے مزدور اور ادھر ادھر دوڑتے پھرتے، مزدور زينوں کو چلا چلا کر پکارتے اور اپنئے ساتھ کام کرنے کيلئے بلاتے، غرض سارا دن ايک شور ايک ہنگامہ رہتا سارا دن آس پاس کے گائوں کے ديہاتي اپنے کھيتوں ميں اور ديہاتوں ميں اپنے گھروں ميں ہوا کے جھونکوں کے ساتھ دور سے آتي ہوئي کھٹ کھٹ کي آوازيں سني رہتيں۔
اس بستي کے کھنڈروں ميں ايک جگہ مسجد کے آثار تھے اور اس کے پاس ہي ايک کنواں تھا جو بند پڑا تھا، راج مزدوروں نے کچھ تو پاني حاصل کرنے اور بيٹھ کر سستانے کي غرض سے کچھ ثواب کمانے اور اپنے نمازي بھائيوں کي عبادت گزاري کے خيال سے سب سے پہلے اس کي مرمت کی، چونکہ يہ فائدہ بخش اور ثواب کا کام تھا اس لئے کسي نے کچھ اعتراض نہ کيا، چنانچہ دو تين روز ميں مسجد تيار ہوگئي۔
دن کو بارہ بجے جيسے ہي کھانا کھانے کي چھٹي ہوتي دو ڈھائي سوراج مزدور مير عمارت، منشي اور ان بيسواؤں کے رشتہ دار يا کارندے جو تعمير کي نگراني پر مامور تھے اس مسجد کے آس پاس جمع ہو جاتے اور اچھا خاصا ميلہ سا لگ جا تا تھا۔
ايک دن ايک ديہاتي بڑھيا جو پاس کے گاؤں ميں رہتي تھي اس بستي کي خبر سن کر آگئي۔ اس کے ساتھ ايک خرد سال لڑکا تھا۔ دونوں نے مسجد کے قريب ايک درخت کے نيچے سگريٹ، بيڑي ، چنے اور گڑکي بني ہوئي مٹھائيوں کا خوانچہ لگا ديا۔ بڑھيا کو آئے ابھي دو دن نہ گزرے تھے کہ ايک بوڑھا کسان کہیں سے ايک مٹکا اٹھا لايا اور کنوئيں کے پاس ايٹنوں کا ايک چھوٹا سا چبوترہ بنا پيسے کے دو دو شکر شربت کے گلاس بيچنے لگا۔ ايک کجنڑے کو جو خبر ہوئي تو ايک ٹوکرے ميں خر بوزے بھر کر لے آيا۔ اور خوانچہ والي بڑھيا، کے پاس بيٹھ کر لے لو خربوزہ ، شہد سے ميٹھے خربوزے کي صدا لگانے لگا۔ اس شخص نے کيا کيا گھر سے سري پائے کي پکا ديگچي ميں رکھ خوانچہ ميں لگا کر تھوڑي سي روٹياں مٹي کے دو تين پيالے اور ٹين کا ايک گلاس لےکر آموجود ہوا اور اسي بستي کے کارکنوں کو جنگل ميں ہنڈيا کا مزا چکھانے لگا۔
ظہر اور عصر کے وقت مير عمارت معمار اور دوسرے مزدوروں سے کنويں سے پاني نکلوا کر وضو کرتے نظر آتے۔ ايک شخص مسجد ميں جا کر آذان ديتا۔ پھر ايک کو امام بنايا جاتا اور دوسرے لوگ اس کے پيچھے کھڑے ہوکر نماز پڑھتے۔ کسي گاؤں کے ايک ملا کے کان ميں جو يہ بھنک پڑي کہ فلاں مسجد ميں امام کي ضرورت ہے وہ دوسرے ہي دن علي الصباح ايک سبز جزدان ميں قرآن شريف، پنچ سورہ، رحل اور مسئلے مسائل کے چند چھوٹے چھوٹے رسالے رکھ کر آموجود ہوا اور اس مسجد کي امامت باقاعدہ طور پر اسے سونپ دي گئي۔
ہر روز تيسرے پہر گاؤں کا ايک کبابي سر پر اپنے سامان کا ٹوکرا اٹھائے آجاتا اور خوانچہ والي بڑھيا کے پاس زمين پر چولھا بنا کر کباب، کليجي، دل اور گردے سيخوں پر چڑھا۔ بستي والوں کے ہاتھ بيچتا۔ ايک بھٹياري نے جو يہ حال ديکھا تو اپنے مياں کو ساتھ لے کر مسجد کے سامنے ميدان ميں دھوپ سے بچنے کيلئے پھوس کا ايک چھپرا ڈال تنور گرم کرنے لگي۔ کبھي کبھي ايک نوجوان ديہاتي نائي پھٹي پراني کسبت گلے ميں ڈالے جوتي کي ٹھوکروں سے راستے کے روڑوں کو لڑھکاتا ادھر ادھر کرتا گشت کرتا ديکھنے ميں آجاتا۔
ان بيسواؤں کے مکانوں کي تعمير کي نگراني انکے رشتے دار يا کارندے کرتے ہي تھے۔ کسي کسي دن وہ دوپہر کے کھانے سے فارغ ہو کر اپنے عشاق کے ہمراہ خود بھي اپنے اپنے مکانوں کو بنتا ديکھنے آجاتيں۔ اور غروب آفتاب سے پہلے يہاں سے نہ جاتيں۔ اس موقع پر فقيروں کي ٹولياں نہ جانے کہاں سے آجاتيں اور جب تک خيرات نہ لي جاتي اپني صداؤں سے برا بر شور مچاتي رہتيں اور انہيں بات کرنے نہ ديتيں۔ کبھي کبھي لفنگے اوباش بے کار عياش لڑکے شہر سے پيدل چل کر بيسواؤں کي اس نئي بستي کي سن گن لينے آجاتے اور اگر اس گھڑی بيسوائيں بھي آئي ہوتيں تو ان کي عيد ہو جاتي اور وہ ان سے ہٹ کر ان کے گرد چکر لگاتے رہتے فقرے کستے۔ بے تکے قہقہے لگاتے عجيب عجيب شکليں بناتے اور محبوبانہ حرکتيں کرتے۔ اس روز کبابي کي خوب بکري ہوتي۔
اس علاقے ميں جہاں تھوڑے ہي دن پہلے ہو کا عالم تھا اب ہر طرف گہما گہمي اور چہل پہل نظر آنے لگي، شروع شروع ميں اس علاقے کي ويراني سے ان بيسواؤں کو يہاں آکر رہنے کے خيال سے جو وحشت ہوتي وہ بڑي حد تک جاتي رہي تھي اور اب وہ ہر مرتبہ خوش خوش اپنے مکانوں کي آرائش اور اپنے مرغوب رنگوں کے متعلق معماروں کو تاکيد کر کےجاتي ہيں۔
بستي ميں ايک جگہ ٹوٹا پھوٹا مزار تھا جو قرائن سے کسي بزرگ کا معلوم ہوتا تھا۔ جب يہ مکان نصف سے زيادہ تعمير ہوچکے تو ايک دن بستي کے راج مزدوروں نے کيا ديکھا کہ مزار کے پاس سے دھواں اٹھ رہا ہے سرخ سرخ آنکھوں والا لمبا تڑنگا مست فقير لنگوٹ باندھے چار ابرو کا صفايا کرائے اس مزار کے ارد گرد کنکر پتھر اٹھا کہ پرے پھينک رہا تھا۔ دوپہر کو وہ فقير ايک گھڑا لے کے کنوئيں پر آيا اور پاني بھر کر اٹھا کر مزار پر لے جانے لگا اور اسے دھونے لگا۔ ايک دفعہ جو آيا تو کنوئيں پر دو تين راج مزدور کھڑے تھے ان سے کہنے لگا جانتے ہو يہ مزار کسکا ہے؟ کڑک شاہ پير بادشاہ کا۔ ميرے باپ دادا ان کے مجاور تھے۔ اس کے بعد اس نے ہنس ہنس کر اور آنکھوں ميں آنسو بھر بھر کے پير کڑک شاہ کي کچھ جلالي کرامت بھي ان راج مزدوروں سے بيان کيں۔ شام کو يہ فقير کہيں سے مانگ تانگ کر مٹي کے دو دئيے اور سرسوں کا تيل لے آيا اور پير کڑک شاہ کي قبر کے سرہانے اور پائتي چراغ روشن کر دئيے۔ رات کو پچھلے پہر کبھي کبھي اس مزار سے اللہ ہو کا مست نعرہ سنائي دے جاتا۔
چھ مہينے گزر نہ پائے کہ يہ چودہ مکان بن کر تيار ہوگئے، يہ سب دو منزلہ اور قريب قريب ايک ہي وضع کے تھے، سات ايک طرف اور سات دوسري طرف بيچ ميں چوڑي سڑک تھي اور ہر ايک مکان کے نيچے چار چار دکانيں تھيں، مکان کي بالائي منزل ميں سڑک کے رخ وسيع برآمدہ تھا۔ اس کے آگے بيٹھنے کيلئے کشتي نما شہ نشین بنائي گئي تھي۔ جس کے دونوں سروں پر يا تو سنگ مر مر کے مور رقص کرتے ہوئے دکھائے گئے تھے اور يا جل پريوں کے مجسمے تراشے گئے تھے جن کا آدھا دھڑ مچھلي کا اور آدھا انسان کا تھا۔ برآمدے کے پيچھے جو بڑا کمرہ تھا اس ميں سنگ مر مر کے نازک نازک ستون بنائے گئے تھے ديواروں پر خوش نما پچي کاري کی گئي تھي۔ فرش سبز چمک دار اور پتھروں کا بنايا گيا تھا۔ جب سنگ مر مر کے ستونوں کے عکس اس فرش پر پڑتے ہيں تو ايسا معلوم ہوتا گويا سفيد براق پروں والے راج ہنسوں نے اپني لمبي لمبي گردنيں جھيل ميں ڈبو دي ہيں۔
بدھ کا شبھ دن اس بستي ميں آنے کے لئے مقرر کيا گيا۔ اس روز بستي کي سب بيسواؤں نے مل کر بہت بھاري نياز دلوائي۔ بستي کے کھلے ميدان ميں زمين کو صاف کرکے شامیانے نصب کردئيے۔ ديگيں کھڑکنے کي آواز اور گوشت اور گھي کي خوشبو بيس بيس کوس سے فقيروں اور کتوں کو کھينچ لائي۔ دوپہر ہوتے ہوتے پير کڑک شاہ کے مزار کے پاس جہاں لنگر تقسيم کيا جانا تھا اس قدر فقير جمع ہوگئے کہ عيد کے روز کس بڑے شہر کي جامع مسجد کے پاس بھي نہ ہوئے ہوں گے۔ پير کڑک شاہ کے مزار کو خوب صاف کرايا اور دھلوايا گيا۔ اور اس پر پھولوں کي چادر چڑھائي گي اور اس مست فقير کو نيا جوڑا سلوا کر پہنا يا گيا جسے اس نے پہنتے ہي پھاڑ ديا۔
شام کو شاميانے کے نيچے دودھ سي اجلي چاندني کا فرش کرديا گيا تھا۔ گاؤ تکيے لگا دئے گئے، پان دان، پيک دان، پيچوان اور گلاب پاش رکھ دئيے گئے اور راگ رنگ کي محفل سجائي گئي۔ دور دور سے بہت سی بيسواؤں کو بلوايا گيا۔ جوان کي سہیلياں يا برادري کي تھيں ان کے ساتھ ان کے بہت سے ملنے والے آئے۔ جن کيلئے ايک الگ شامانے ميں کرسيوں کا انتظام کيا گيا تھا۔ اور ان کے سامنے کے رخ چقيں ڈال دي گئيں۔ بے شمار گيسوں کي روشني سے يہ جگہ بقعہ نور بني ہوئي تھي۔ ان بيسواؤں کے توندل سياہ فام سازندے زربفت اور کمخواب کي شيروانياں پہنے عطر ميں بسے ہوئے پھوئے کانوں ميں رکھے ادھر ادھر مونچھوں کو تاؤں ديتے پھرتے۔ اور زرق برق لباسوں اور تتلي کے پر سے بھي باريک ساڑيون ميں ملبوس، غازوں اور خوشبوؤں سے بسی ہوئي نازنين انکھيوں سے چلتيں۔ رات بھر رقص و سرور کا ہنگامہ برپا رہا اور جنگل ميں منگل ہوگيا۔
دو تين دن کے بعد اس جشن کي تھکاوٹ اتر گئي تو يہ بيسوائيں سازو سامان کي فراہمي اور مکانوں کي آرائش ميں مصروف ہوگئیں۔ جھاڑ، فانوس، ظروف، بلوري قد آدم آئينے، نواڑي پلنگ، تصويريں اور قطعات سنہري چوکھٹوں ميں جڑے ہوئے لائے گئے اور قرينے سے کمروں ميں لگائے گئے۔ اور کوئي آٹھ روز ميں جاکر يہ مکان کيل کانٹے سے ليس ہوئے۔ يہ عورتيں دن کا بيشتر حصہ تو استادوں سے رقص و سرور کي تعليم لينے غزليں ياد کرنے، دھنيں بٹھانے، سبق پڑھنے، تختي لکھنے ، سينے پرونے، کاڑھنے گراموفون سننے، استادوں سے تاش اور کیرم کھيلنے، ضلع جگت، نوک جھونک سے جي بہلانے يا سونے ميں گزارتيں اور تيسرے پہر غسل خانوں ميں نہانے جاتيں۔ جہاں ان کے ملازموں نے دستي پمپوں سے پاني نکال نکال کر ٹب ميں بھر رکھے ہوتے ہيں۔ اس کے بعد وہ بناؤ سنگھار ميں مصروف ہوجاتيں۔
جيسے ہي رات کا اندھيرا پھيلتا۔ يہ مکان گيسوں کي روشني سے جگمگا اٹھتے جو جا بجا سنگ مر مر کےآدھے کھلے ہوئے کنولوں ميں نہايت صفائي سے چھپائے گئے تھے اور ان مکانوں کي کھڑکيوں اور دروازوں کے کواڑوں کے شيشے جو پھول پتيوں کي وضع کے کاٹ کر جڑے گئے تھے ان کي قوس قزح کے رنگوں کي سي روشنياں دور سے جھل مل کرتي ہوئي نہايت بھلي معلوم ہوتي۔ يہ بیسوائيں بناؤ سنگھار کئے برآمدے ميں ٹہلتي آس پاس واليوں سے باتيں کرتيں ہنستيں کھلکھلاتيں۔
جب کھڑے کھڑے تھک جاتي تو اندر کمرے ميں چاندني کے فرش پر گاؤ تکيے سے لگ کر بيٹھ جاتيں۔ ان کے سازندے ساز ملاتے رہتے اور يہ چھاليا کترتي رہتيں۔ جب رات ذرا بھيگ جاتي تو ان کے ملنے والے ٹوکروں ميں شراب کي بوتليں اور پھل پھلاري ليے اپنے دوستوں کے ساتھ موٹروں يا تانگوں ميں بيٹھ کر آتے۔ اس بستي ميں ان کے قدم رکھتے ہي ايک خاص گہما گہمي اور چہل پہلے ہونے لگتي۔ نغمہ و سازسرور کے ساتھ رقص کرتي ہوئي نازنينوں کے گھنگھروؤں کي آواز قلقل مينا ميں مل کر ايک عجيب سرور کي کيفيت پيدا کرديتي ہے- عيش و مستي کے ان ہنگاموں ميں معلوم بھي نہ ہوتا اور رات بیت جاتي۔
ان بيسواؤں کو اس بستي ميں آئے چند ہي روز ہوئے تھے کہ دکانوں کے کرايہ دار پيدا ہونے شروع ہوگئے۔ جن کا کرايہ اس بستي کو آباد کرنے کے خيال سے بہت کم رکھا گھا تھا۔ سب سے پہلے جو دکان دار آيا وہ بڑھيا تھي۔ جس نے سب سے پہلے مسجد کے سامنے درخت کے نيچے خوانچہ لگايا تھا۔ دوکان کو پر کرنے کيلئے بڑھيا اور اس کا لڑکا سگرٹوں کے بہت سے خالي ڈبے اٹھالائے اور انہيں منبر کے طاقوں ميں سجا کر رکھ ديا۔ بوتلوں ميں رنگ دار پاني بھر ديا گيا تاکہ معلوم ہو شربت کي بوتليں ہيں۔ بڑھيانے اپني بساط کے مطابق کاغذي پھولوں اور سگريٹ کي خالي ڈبيوں سے بنائي ہوئي بيلوں سے دکان کي کچي آرائش بھي کي۔ بعض ايکٹروں اور ايکٹریسوں کي تصويريں پرانے فلمي رسالوں سے نکال کر لئی سے ديواروں سے چپکا ديں۔ دوکان کا اصل مال دو تين قسم کے سگريٹ تين تین چار چار پيکٹوں، بيڑي کے آٹھ دس بنڈلوں، ديا سلائي کے نصف درجن ڈبيوں، پانوں کي ايک ڈھولي، پينے کے تمباکو کي تين چار ٹکياں اور موم بتي کے نصف بنڈل سے زيادہ نہ تھا۔
دوسري دوکان ميں ايک بنيا۔ تیسری ميں حلوائي اور شير فروش، چوتھي ميں قصائي، پانچويں ميں کبابي اور چھٹي ميں کنجڑا آبسے۔ کنجڑا آس پاس کے ديہات سے سستي داموں چار پانچ قسم کي سبزياں لے آتا اور يہاں خاصے منافعے پر بيچ ديتا۔ ايک آدھ ٹوکرا پھلوں کا بھي رکھ ليتا چونکہ دوکان خاصي کھلي تھي ايک پھول والا اس کا ساجھي بن گيا، وہ دن بھر پھولوں کے ہار گجرے اور طرح طرح کے گہنے بناتا اور شام کو انہيں چنگير ميں ڈال کر ايک ايک مکان ميں لے جاتا اور نہ صرف پھول ہي بيچ آتا بلکہ ہر جگہ ايک ايک دو دو گھڑي بيٹھ کے سازندوں سے گپ شپ بھي ہانک ليتا۔ اور حقے کے دم بھي بھرتا۔ جس دن تماش بينوں کي کوئي ٹولي اس کي موجودگي ميں ميں کوٹھے پر چڑھ آتي اور گانا بجانا شروع ہوجاتا تو وہ سازندوں کے ناک بھوؤں چڑھانے کے باوجود بھي اٹھنے کا نام نہ ليتا۔ مزے سے گانے پر سردھنتا اور بيوقوفوں کي طرح ايک ايک کي صورت تکتا رہتا۔ جس دن رات زيادہ گزر جاتي اور کوئي ہار بچ جاتا تو اسے اپنے گلے ميں ڈال ليتا اور بستي کے باہر گلا پھاڑ پھاڑ کر گاتا پھرتا۔
ايک دکان ميں ايک بيسوا کا بھائي اور باپ جو درزيوں کا کام جانتے تھے سينے کي ايک مشين رکھ کر بيٹھ گئے۔ ہوتے ہوتے ايک حجام بھي آگيا اور اپنے ساتھ ايک رنگريز کو بھي ليتا آيا۔ اسکي دوکان کے باہر الگني پر لٹکے ہوئے اس طرح کے رنگوں کے لہريا دوپٹے ہوا ميں لہراتے ہوئے آنکھوں کو بہت بھلے معلوم ہونےلگے۔
چند ہي روز گزرے تھے کہ ايک ٹٹ پونجئيے بساطي جس کي دکان شہر ميں چلتي نہ تھي بلکہ اس دکان کا کرايہ نکالنا بھي مشکل ہوجاتا تھا نے شہر کو خيرباد کہہ کر اسي بستي کا رخ کي۔، يہاں اسےہاتھوں ہاتھ ليا گیا اور طرح طرح کے لوّنڈر، قسم قسم کے پاوڈر، صابن، کنگھياں بٹن سوئي دھاگا، ليس، فيتے، خوشبودار تيل رومال منجن وغيرہ کي خوب بکري ہونے لگي۔
اس بستي کے رہنے والوں کی سرپرستي اور ان کے مربيانہ سلوک کي وجہ سے اس طرح دوسرے تيسرے کوئي نہ کوئي ٹٹ پونچھيا دکان دار کوئي بزاز کوئي پنساري، کوئي نيچہ بند، کوئي نانبائي مندے کي وجہ سے يا شہر کے بڑھے ہوئے کرايوں سے گھبرا کر اس بستي ميں آ پناہ ليتا۔
ايک بڑے مياں عطار جو حکمت میں بھي کس قدر دخل رکھتے تھے۔ انکا جي شہر کي گنجان آبادي سے گھبرايا تو وہ اپنے شاگردوں کو ساتھ لے شہر سے اٹھ آئے اسي بستي ميں ايک دوکان کرائے پر لي۔ ہر روز صبح کو بيسواؤں کے ملازم گلاس لے لے کر۔ آموجود ہوتے اور شربت بزوري، شربت بنفشہ، شربت انار اور ويسے ہي فرحت بخش روح افزا شربت و عرق خمیرہ گاؤ زبان اور تقويت پہنچانے والے مربے مع ورق ہائے نقرہ لے جاتے۔
جو دکانيں بچ رہيں ان ميں بيسواؤں کے بھائي بندوں اور سازندوں نے اپني چار پائياں ڈال ديں۔ دن بھر يہ لوگ ان دکانوں ميں تاش چوسر اور شطرنج کھيلتے بدن پر تيل ملواتے۔ سبزي گھوٹتے، بٹیروں کي پالياں کراتے تيتروں سے سبحان تيري قدرت کي رٹ لگواتے اور گھڑا بجا بجا کر گاتے۔
ايک بيسوا کے سازندے نے ايک دوکان خالي ديکھ کر اپنے بھائي کو جو ساز بنانا جانتا تھا اس ميں لا بٹھايا۔ دوکان کي ديوار کے ساتھ ساتھ کيليں ٹھونک کر ٹوٹي پھوٹي مرمت طلب سارنگياں، ستار، طنبورے، دل ربا وغيرہ ٹانک کر لٹکا دئيے۔ يہ شخص ستار بجانے ميں بھي کمال رکھا تھا۔ شام کو وہ اپني دکان ميں ستاربجاتا جس کي ميٹھي آواز سن کر آس پاس کے دوکان دار آجاتے اور دير تک بت بنے سنتے رہتے۔ اس ستار نواز کا ايک شاگرد تھا جو ريلوے کے دفتر ميں کلرک تھا۔ اسے ستار سيکھنے کا بہت شوق تھا جيسے ہي دفتر سے چھٹي ہوتي سيدھا اڑتا ہوا اس بستي کا رخ کرتا اور گھنٹہ ڈيڑھ گھنٹہ بيٹھ کر مشق کيا کرتا۔ غرض اس ستار نواز کے دم سے بستي ميں خاصي رونق رہنے لگي۔
مسجد کے ملاجي جب تک يہ بستي زير تعمير ہي رات کو ديہات ميں اپنے گھر چلے جاتے رہے۔ مگر اب کہ انہيں دونوں وقت مرغن کھانا بافراط پہنچنے لگا تو وہ رات کو بھي يہيں رہنے لگے۔ رفتہ رفتہ بيسواؤں کے گھروں سے بچے بھي مسجد ميں آنے لگے جس سے ملا جي کو روپے پيسے کي آمدني ہونے لگي۔ ايک شہر شہر گھومنے والي گھٹيا درجہ کي تھيڑ يکل کمپني کو جب زمين کے چڑھے ہوئے کرائے اور اپني بے مانگي کے باعث شہر ميں کہيں جگہ نہ ملي تو اس نے اس بستي کا رخ کيا۔ اور بيسواؤں کے مکانوں کے کچھ فاصلے پر ميدان ميں تنبوں کھڑے کرکے ڈيرے ڈال دئيے۔ اس کے ايکٹر اداکاري کے فن سے نا بلد تھے۔ ان کے ڈريس پھٹے پرانے تھے۔ جن کے بہت سے ستارے جھڑ چکے تھے اور يہ لوگ تماشے بھي بہت پرانے اور دقيانوسي دکھاتے تھے۔ مگر اس کے باوجود کمپني چل نکلي۔ اس کي وجہ تھي کہ ٹکٹ کے دام بہت کم تھے۔ شہر کے مزدوري پيشہ لوگ کا رخانوں ميں کام کرنے والے غريب غربا جو دن بھر کي کڑي محنت و مشقت کي کسر شور و غل، خرمستيوں اور ادنٰي عياشيوں سے نکالنا چاہتے تھے۔ پانچ پانچ چھ چھ کي ٹولياں بناکر گلے ميں پھولوں کے ہار ڈالے ہنستے بولتے، بانسرياں اور الغوزہ بجاتے راہ چلتيوں پر آوازيں کستے ۔ گالي گلوچ کرتے شہر سے پيدل چل کر تھيڑ ديکھنے آتے اور لگے ہاتھون بازار حسن کي بھي سير کرجاتے۔ جب تک ناٹک شروع نہ ہوتا تھيڑ کا ایک مسخرہ تنبو کے باہر ايک اسٹول پر کھڑا کبھي سر ہلاتا ، کبھي منہ پھلاتا ، کبھي آنکھيں مٹکاتا، عجيب حيا سوز حرکتيں کرتا جنہيں ديکھ کر لوگ زور زور سے قہقہے لگاتے اور گاليوں کي صورت ميں داد ديتے۔
رفتہ رفتہ دوسرے لوگ بھي اس بستي ميں آنے لگے چناچہ شہر کے بڑے بڑے چوکوں ميں تانگے والے صدائيں لگانے لگے، آؤ کوئي نئي بستي کو شہر سے پانچ کوس تک جو پکي سڑک تھي۔ اس پر پہنچ کر تانگے والے سواريوں سے انعام حاصل کرنے کے لالچ ميں يا ان کي فرمائش پر تانگوں کي دوڑيں کراتے۔ منہ سے ہارن بجاتے۔ اس دوڑ ميں غريب گھوڑوں کا برا حال ہوجاتا ہے ان کے گلے ميں پڑے ہوئے پھولوں کے ہاروں سے بجائے خوشبوؤں کے پسينے کي بدبو آنے لگتي۔ رکشا والے تانگوں والوں سے کيوں پيچھے رہتے۔ وہ ان سے کم داموں پر سوارياں بٹھا طرارے بھرتے اور گھنگھروں بجاتے اس بستي کو جانے لگے۔ علاوہ ازيں ہر ہفتے کي شام کو اسکولوں کالجوں کے طلبہ ايک ايک سائيکل پر دو دو لد جوق در جوق اس پر اسرار بازار کي سير کرنے آنے جس سے ان کے خيال کے مطابق ان کے بڑوں نے خواہ مخواہ محروم کرديا تھا۔
رفتہ رفتہ اس بستي کي شہرت چاروں طرف پھيلنے اور مکانوں اور دکانوں کي مانگ ہونے لگي۔ کئي عورتوں نےتو جھٹ زمين خريد کر ان بيسوائوں کے ساتھ ساتھ وضع قطع کے مکان بنوانے شروع کئيے، علاوہ ازيں شہر کے بعض مہاجنوں نے بھي اس بستي کے آس پاس سستے داموں زمنيں خريد خريد کر کرايہ پر اٹھانے کيلئے چھوٹے چھوٹے کئي مکان بنواڈالے نتيجہ يہ ہوا کہ وہ فاحشہ عورتيں جو ہوٹلوں ميں شريف محلوں ميں روپوش تھيں، مور ملخ کي طرح اپنے نہاں خانوں سے باہر نکل آئيں اور ان مکانوں ميں آباد ہوگئيں۔ چھوٹے مکانوں ميں اس بستي کے وہ دوکان دار آبسے جو عيال دار تھے اور رات کو دکان ميں سو نہ سکتے تھے۔
اس بستي ميں آبادي تو خاصي ہوگئي تھي مگر اب بھي بجلي کي روشني کا انتظام نہيں ہوا تھا۔ چنانچہ ان بيسواؤں اور بستي کے تمام رہنے والوں کي طرف سرکار کے پاس بجلي کيلئے درخواست بھيجي گئي تھي جو تھوڑے دنوں بعد منظور کرلي گئي۔ اس کے ساتھ ہي ايک ڈاک خانہ بھي کھول ديا گيا۔ ايک بڑے مياں ڈاک خانے کے پاس ايک صندوقچے ميں لفافے کارڈ اور قلم دوات رکھ کر بستي کے لوگوں کے خط پتر لکھنے لگے۔
ايک دفعہ بستي ميں شرابيوں کي دو ٹوليوں ميں فساد ہوگيا۔ اس ميں سو ڈا واٹر کي بوتليں چاقوں اور اينٹوں کا آزادانہ استعمال کيا گيا اور کئي لوگ سخت مجروح ہوئے اس پر سرکار کو خيال آيا کہ اس بستي ميں ايک تھانہ بھي کھول دنيا چاہئيے۔
تھيٹريکل کپمني دو مہينے تک رہي اور اپني بساط کے مطابق خاصا کمانے لگي۔ اس پر شہر کے ايک سنيما کے مالک نے سوچا کہ کيوں نہ اس بستي ميں سنيما کھول ديا جائے۔ يہ خيال آنے کي دير تھي کہ اس نے جھٹ ايک موقع کي جگہ چن کر خريد لي اور جلد از جلد تعمير کا کام شروع کراديا۔ چند ہي مہينوں ميں سنيما ہال تيار ہوگيا۔ اس کے باہر ايک چھوٹا سا باغيچہ بھي لگوايا گيا تاکہ تماشائي اگر بائيکسوپ شروع ہونے سے پہلے آجائيں تو آرام سے باغيچہ ميں بيٹھ سکيں۔ ان کے ساتھ بستي کے لوگ يوں ہي سستانے يا سیر ديکھنے کي غرض سے آکے بيٹھنے لگے۔ يہ باغيچہ خاصا سيرگاہ بن گيا۔ رفتہ رفتہ سقے کٹوار بجاتے اس باغيچے ميں آنے اور پياسوں کي پياس بھجانے لگے۔ سر کے تيل مالش والے نہاہت گھٹيا قسم کے تيز خوشبودار تيل کي شيشياں واسکٹ کي جيبيوں ميں ٹھونسے کاندھے پر ميلا کچيلا توليہ ڈالے، دل پسند بہار مالش کي صدا لگاتے درد سر کے مريضوں کو اپني خدمات پيش کرنے لگے۔ سنيما کے مالک نے سنيما ہال کي عمارت کي بيروني جانب دو ايک مکان اور کئي دوکانيں بھي بنوائيں، مکان ميں تو ہوٹل کھل گيا جس ميں رات کو قيام کرنے کيلئے کمرے بھي مل سکتے تھے، اور دکانوں ميں ايک سوڈا واٹر کي فيکٹري والا ايک فوٹو گرافر۔ ايک سائيکل مرمت والا، ايک لانڈري والا، دو پٹواري، ايک بوٹ شاپ والا، اور ايک ڈاکٹر مع اپنے دواخانہ کے آرہے، ہوتے ہوتے پاس ہي ايک دکان ميں کلال خانہ کھلنے کي اجازت مل گئي۔ فوٹو گرافر کي دکان کے باہر ايک کونے ميں ايک گھڑي ساز نے آڈيرا جمایا اور ہر وقت محب شيشہ آنکھ پر چڑھائے گھڑيوں کے کل پُرزوں پر غلطاں و پیچاں رہنے لگا۔
اس کے کچھ ہي دنوں بعد بستي ميں، نل، روشني اور صفائي کا باقاعدہ انتظام کي طرف توجہ کي جانے لگي۔ سرکاي کارندے، سرخ جھنڈياں، جريبيں اور اونچ نيچ ديکھنے والے لے لے کر آن پہنچے اور ناپ ناپ کر سڑکوں اور گلي کوچوں کي داغ بيل ڈالنے لگے اور بستي کي کچي سڑکوں پر سڑک کوٹنے والا انجن چلنے لگا۔
اس واقعہ کو بيس برس گزر چکے ہيں يہ بستي ايک بھرا ہوا شہر بن چکا ہے، جس کا اپنا ريلوے اسٹيشن اور ٹاؤن ہال بھي، کچہري بھي اور جيل خانے بھي آباي ڈھائي لاکھ کے لگ بھگ شہر ميں ايک کالج دوہائي اسکول ايک لڑکوں کيلئے ايک لڑکيوں کيلئے اور آٹھ پرائمري اسکول ہيں جن ميں ميونسپلٹي کي طرف مفت تعليم دي جاتي ہے، چھ سنيما ہيں اور چار بنک جن ميں سے دو دنيا کے بڑے بڑے بينکوں کي شاخیں ہيں۔
شہر سے دور روزانہ تين ہفتہ وار دس ماہانہ رسائل و جرائد شاع ہوتے ہيں ان ميں چار ادبي دو اخلاقي و معاشرتي و مذہبي، ايک صنعتي، ايک طبي ايک زنانہ ايک بچوں کي رسالہ ہے، شہر کے مختلف حصوں ميں دو مسجديں، پندرہ مندر اور دھرم شالے، چھ يتيم خانے، پانچ اناتھ آشرم اور تين بڑے سرکاري ہسپتال ہيں جن ميں ايک صرف عورتوں کيلئے مخصوص ہے۔
شروع شروع ميں کئي سال تک يہ شہر اپنے رہنے والوں کي مناسبت سے حُسن آباد، کے نام سے موسم کيا جاتا رہا مگر بعد ميں اسے نا مناسب سمجھ کر اس ميں تھوڑي سي ترميم کر دي گئي يعني بجائے حَسن آباد کہلانے لگا مگر يہ نام چل نہ سکا کيوں کہ عوام حُسن اور حَسن ميں کچھ امتياز نہ کرتے۔ آخر بڑي بڑي بوسيدہ کتابوں کي ورق گرداني اور پرانے نوشتوں کي چھان بين کے بعد اس کا اصلي نام دريافت کيا گيا جس سے يہ بستي آج سے سيکڑوں برس اجڑنے سے پہلے موسوم تھي اور وہ نام ہے آننندي۔
يوں تو سارا شہر بھر صاف ستھرا اور خوشنما ہے مگر سب سے بارونق اور تجارت کا سب سے بڑا مرکز وہي بازار ہے جس ميں زنان بازاري ہوتي ہے۔
آنندي کے بلديہ کا اجلاس زوروں پر ہے، ہال کھچا کھچ بھرا ہوا ہے اور خلاف معمول ايک ممبر بھي غير حاضر نہیں بلديہ کے زير بحث مسئلہ يہ ہے کہ زنان بازار کو شہر بدر کرديا جائے۔ کيوں کہ ان کا وجود انسانيت اور شرافت اور تہذيب کے دامن پر بد نما داغ ہے۔ ايک فصيح البيان مقرر تقریر کر رہے ہيں ،،معلوم نہيں وہ کيا مصلحت تھي جس کے زير اثر اس ناپاک طبقے کو ہمارے اس قديمي تاريخي شہر کے عين بيچوں بيچ رہنے کي اجازت دے دي گئي۔،،
اس مرتبہ ان عورتوں کے رہنے کيلئے جو علاقہ منتخب کيا گيا وہ شہر سے بارہ کوس دور تھا۔
غلام عباس 1909ء میں پیدا ہوئے۔ ادبی زندگی کا آغاز 1925ء میں ہوا۔ 1925ء سے 1928ء تک غیر ملکی افسانوں کے ترجمے کرتے رہے۔ 1928ء سے 1937ء تک بچوں کے رسالوں (پھول) اور (تہذیب نسواں) کے ایڈیٹر رہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران آل انڈیا ریڈیو سے منسلک رہے۔ آل انڈیا کے اردو ہندی رسالے (آواز) اور (سارنگ) کے مدیر بھی رہے۔ تقسیم کے بعد پاکستان آگئے اور ریڈیو سے وابستہ رہے ۔
ملازمت کے دوران افسانہ نگاری کی طرف توجہ کی اور چند کامیاب افسانے لکھ کر اردو افسانہ نگاری میں نمایاں حیثیت حاصل کر لی۔