صفحه اصلی تبیان
شبکه اجتماعی
مشاوره
آموزش
فیلم
صوت
تصاویر
حوزه
کتابخانه
دانلود
وبلاگ
فروشگاه اینترنتی
سوموار 25 نومبر 2024
فارسي
العربیة
اردو
Türkçe
Русский
English
Français
تعارفی نام :
پاسورڈ :
تلاش کریں :
:::
اسلام
قرآن کریم
صحیفه سجادیه
نهج البلاغه
مفاتیح الجنان
انقلاب ایران
مسلمان خاندان
رساله علماء
سروسز
صحت و تندرستی
مناسبتیں
آڈیو ویڈیو
اصلی صفحہ
>
اردو ادب و ثقافت
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
وصی شاہ کی شاعری
میرے مولا تری جنت سے جدا لگتی ہے / میری دھرتی مجھے معصوم دعا لگتی ہے
الجھن
تیرا میرا رشتہ کچھ ایسا الجھا ہے / اس کو سلجھاتے سلجھاتے
ہم نے جو دیپ جلاۓ ہیں،تری گلیوں میں
ہم نے جو دیپ جلاۓ ہیں،تری گلیوں میں / اپنے کچھ خواب سجاۓ ہیں ،تری گلیوں میں
اشفاق احمد
اردو افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، نثر نگار،لاہور میں پیدا ہوئے اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے کیا، اٹلی کی روم یونیورسٹی اور گرے نوبلے یونیورسٹی فرانس سے اطالوی اور فرانسیسی زبان میں ڈپلومے کیے
برصغیر کے نامور شاعر اور سفر نامہ نگار ابن انشاء
اردو شعر و ادب میں بے پناہ شہرت پانے والے ابنِ اِنشاء کا اصل نام شیر محمد تھا۔ آپ 15 جون 1927 ء کو ہندوستان کے ضلع لدھیانہ کی تحصیل پھلور کے گاوٴں تھلہ کے ایک راجپوت گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کا نام منشی خان تھا۔
تمہارے ہاتھوں کے لیے ایک دعا
ایسا لگتا ہے جو یہ ہاتھ دعا کو اٹھیں / خود فرشتے چلے آتے ہوں زمیں کی جانب
مٹی کا بھوجھ
گورڈن کالج راولپنڈی کی کینٹین اس وقت طالب علموں سے کھچا کچھ بھری ہوئی تھی ۔ یہ امتحانات کے دن تھے لڑکے پرچے دے کر سیدھے کینٹین میں چلے آ رہے تھے
آنکھوں سے مری اس لیے لالی نہیں جاتی
آنکھوں سے مری اس لیے لالی نہیں جاتی/ یادوں سے کوئی رات جو خالی نہیں جاتی
المیہ
تمہاری زلفیں / تمہاری پلکیں
جو اس کے سامنے میرا یہ حال آ جاۓ
جو اس کے سامنے میرا یہ حال آ جاۓ/ تو دکھ سے اور بھی اس پر جمال آ جاۓ
نذرِ سودا
فکر دلداری گلزار کروں یا نہ کروں / ذکرِ مرغانِ گرفتار کروں یا نہ کروں
ترانہ
دربارِ وطن میں جب اک دن سب جانے والے جائیں گے/ کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے ، کچھ اپنی جزا لے جائیں گے
طوق و دار کا موسم
روش روش ہے وہی انتظار کا موسم/ نہیں ہے کوئی بھی موسم، بہار کا موسم
سلام لکھتا ہے شاعر تمہارے حسن کے نام
بکھر گیا جو کبھی رنگِ پیرہن سرِ بام/ نکھر گئی ہے کبھی صبح، دوپہر ، کبھی شام
میری آنکھوں میں آنسو پگھلتا رہا، چاند جلتا رہا
میری آنکھوں میں آنسو پگھلتا رہا، چاند جلتا رہا / تیری یادوں کا سورج نکلتا رہا، چاند جلتا رہا
ترے گلے میں جو بانہوں کو ڈال رکھتے ہیں
ترے گلے میں جو بانہوں کو ڈال رکھتے ہیں / تجھے منانے کا کیسا کمال رکھتے ہیں
ہم سے کیا پوچھتے ہو ہجر میں کیا کرتے ہیں
ہم سے کیا پوچھتے ہو ہجر میں کیا کرتے ہیں / تیرے لوٹ آنے کی دن رات دعا کرتے ہیں
تمہاری یاد سے ہر پل سجا ہوا کیمپس
تمہاری یاد سے ہر پل سجا ہوا کیمپس / میں کیا کروں کہ بھلا ہی نہیں سکا کیمپس
بلوچ صوفی شاعر جام درک (1784ء ۔1714ء)
بلوچ صوفی شاعر جام درک جو کہ ڈومبکی قبیلہ کے سردار کرم خان کے صابزادے تھے ۔ اٹھارویں صدی عیسوی کی دوسری دھائی میں 1714ء میں پیدا ہوئے
شاہ حسین (1539-1594)
عشقِ حقیقی میں ڈوبی ہوئی یہ آواز ایک درویش صفت اور مست الست انسان کی آواز ہے جو آج سے تقریبا ساڑھے چار سو سال قبل خطہ پنجاب میں گونجی اور پھر دیکھتے دیکھتے پاک وہند میں پھیل گئی
او میرے مصروف خدا
او میرے مصروف خدا/ اپنی دنیا دیکھ ذرا
دیکھ محبّت کا دستور
تو مجھ سے میں تجھ سے دور / تنہا تنہا پھرتے ہیں
عشق میں جیت ہوئی یا مات
عشق میں جیت ہوئی یا مات / آج کی رات نہ چھیڑ یہ بات
گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے
گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے / خدا کرے کوئی تیرے سوا نہ پہچانے
ترے ملنے کو بے کل ہو گۓ ہیں
ترے ملنے کو بے کل ہو گۓ ہیں/ مگر یہ لوگ پاگل ہو گۓ ہیں
میاں محمد بخش (1824-1907)
میاں محمد بخش پنجاب میں عربی ، فارسی روایت کے آخری معروف ترین صوفی شاعر تھے۔ ان کی ولادت ۱۸۲۴ء میں میرپور کے علاقہ کھڑی شریف میں ہوئی
رحمان بابا (1653-1709)
رحمان بابا جن کا اصل نام عبد الرحمن تھا۔ بلاخوف تردید پشتو زبان کے سب سے بڑے صوفی شاعر تھے۔ مورخین کے مطابق ان کی ولادت بہادر کلی کے مقام پر۱۶۵۳ء میں ہوئی
سلطان باہو (1631-1691)
پنجاب کے صوفی ۱کابرین میں سلطان باہو کو بھی ممتاز ترین مقام حاصل ہے۔ ان کا تعلق شاہ جہاں کے عہد کے ایک جاگیردار خاندان سے تھا جس کا تعلق پنجاب کے ضلع جنگ سے تھا
روشنی
اینا گریٹا میں کیا تھا ؟ یہ کہنا میرے لیے بہت مشکل تھا۔ ساری لڑکیوں کو چھوڑ کر میں صرف اسی پر کیوں مرتا تھا
آج ہمیں یہ بات سمجھ میں آئی ہے
آج ہمیں یہ بات سمجھ میں آئی ہے / تم موسم ہو ،اور موسم ہرجائی ہے
بابا فرید گنج شکر (1173-1265)
بابا فرید جنہیں گنج شکرکے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ملتان کے نزدیک کتھوال کے مقام پر پیدا ہوئے۔ ان کے آباؤ اجداد بارہویں صدی کے اواخر میں کابل سے یہاں آئے تھے
عہد طفلی
تھے دیار نو زمین و آسماں میرے لیے/ وسعت آغوش مادر اک جہاں میرے لیے
Dilemma
تم میری کون ہو ، تم سے ہے تعلق کیسا / تم کسی دھند میں لپٹی ہوئی تنہائی ہو
دل میں بکھرے ہوۓ جالوں سے ذرا پریشان نہ ہو
دل میں بکھرے ہوۓ جالوں سے ذرا پریشان نہ ہو / میرے گزرے ہوۓ سالوں سے پریشان نہ ہو
کہیں چراغ ہیں روشن ، کہیں پہ مدھم ہیں
کہیں چراغ ہیں روشن ، کہیں پہ مدھم ہیں/ تمہارے آنے کے امکان ہیں ، مگر کم ہیں
تو کہاں تھا
جب غم مری دھڑکن مری باتوں سے عیاں تھا ، تو کہاں تھا/ جب چاروں طرف درد کے دریا کا سماں تھا، تو کہاں تھا
ابر کوہسار
ہے بلندی سے فلک بوس نشیمن میرا/ ابر کہسار ہوں گل پاش ہے دامن میرا
باندھ لیں ہاتھ سینے پہ سجالیں تم کو
باندھ لیں ہاتھ پہ سینے پہ سجا لیں تم کو / جی میں آتا ہے کہ تعویذ بنا لیں تم کو
ترے فراق کے لمحے شمار کرتے ہوئے
ترے فراق کے لمحے شمار کرتے ہوئے / بکھر چلے ہیں ترا انتظار کرتے ہوئے
اس کی آنکھوں میں محبت کا ستارہ ہوگا
اس کی آنکھوں میں محبت کا ستارہ ہوگا/ ایک دن آئے گا وہ شخص ہمارا ہوگا
TOO late
آدھی رات کے سناٹے میں / کس نے فون کیا ہے مجھ کو؟
اپنے احساس سے چھو کر مجھے صندل کردو
اپنے احساس سے چھو کر مجھے صندل کردو/ میں کہ صدیوں سے ادھورا ہوں مکمل کردو
بہت لگتا ہے د ل صحبت میں اس کی
بہت لگتا ہے د ل صحبت میں اس کی / وہ اپنی ذات میں اک انجمن ہے
باپ کا ہے جبھی پسر وارث
باپ کا ہے جبھی پسر وارث/ ہو ہنر کا بھی اس کے گر وارث
بھید واعظ اپنا کھلوایا عبث
بھید واعظ اپنا کھلوایا عبث/ دل جلوں کو تو نے گرمایا عبث
اے عشق تو نے اکثر قوموں کو کھا کے چھوڑا
اے عشق تو نے اکثر قوموں کو کھا کے چھوڑا / جس گھر سے سر اٹھایا اس کو بٹھا کے چھوڑا
احمد فراز
احمد فراز 1931ء میں کوہاٹ میں پیدا ہوۓ ۔ اردو اور فارسی میں ایم اے کیا ۔ ایڈورڈ کالج ( پشاور ) میں تعلیم کے دوران ریڈیو پاکستان کے لۓ فیچر لکھنے شروع کیے ۔ جب ان کا پہلا شعری مجموعہ '' تنہا تنہا '' شائع ہوا تو وہ بی اے میں تھے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
ہمارے درمیان سے ایک اور بڑا شاعر اٹھ گیا ، چونکہ ہمارے ہاں شجر کاری کا رواج نہیں، چنانچہ کسی برگد کے کٹ جانے اور کسی بڑے آدمی کے اٹھ جانے کے بعد اس کی جگہ لینے والا کوئی نہیں ہوتا
چڑيل
جي ہاں ہے تو عجيب بات مگر بعض باتيں سچي بھي ہوتيں ہيں، دن بھر وہ برساتي نالوں ميں چقماقي کے جھولياں چنتي ہے
بڈھا
جب منڈيروں پر پھدکتي ہوئي چڑياں ايک دم بھرر سے فضا ميں ابھرا جاتيں اور کھرليوں کے قريب گٹھڑياں بنے ہوئے بچھڑۓ اپنے لمبے لمبے کانوں کے آخري سرے ملا کر محرابيں سي بنا ليتے تو جھکي ہوئي ديواروں کے سائے ميں بيٹھے ہوئے
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
اصلی صفحہ
ہمارے بارے میں
رابطہ کریں
آپ کی راۓ
سائٹ کا نقشہ
صارفین کی تعداد
کل تعداد
آن لائن