گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے
گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے |
خدا کرے کوئی تیرے سوا نہ پہچانے |
مٹی مٹی سی امیدیں تھکے تھکے سے خیال |
بجھے بجھے سے نگاہوں میں غم کے افسانے |
ہزار شکر کہ ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا |
یہ اور بات کہ پوچھا نہ اہلِ دنیا نے |
بقدرِ تشنہ لبی پرسشِ وفا نہ ہوئی |
چھلک کے رہ گۓ تیری نظر کے پیمانے |
خیال آ گیا مایوس رہ گزاروں کا |
پلٹ کے آ گۓ منزل سے تیرے دیوانے |
کہاں ہے تو کہ ترے انتطار میں اے دوست |
تمام رات سلگتے ہیں دل کے ویرانے |
امیدِ پرسشِ غم کس سے کیجیے ناصر |
جو اپنے دل پہ گزرتی ہے کوئی کیا جانے |
شاعر کا نام : ناصر کاظمی
متعلقہ تحریریں:
مایوس نہ ہو اداس راہی
کیا دن مجھے عشق نے دکھاۓ
رونقیں تھیں جہاں میں کیا کیا کچھ
حاصلِ عشق ترا حُسنِ پشیماں ہی سہی