بڈھا
جب منڈيروں پر پھدکتي ہوئي چڑياں ايک دم بھرر سے فضا ميں ابھرا جاتيں اور کھرليوں کے قريب گٹھڑياں بنے ہوئے بچھڑۓ اپنے لمبے لمبے کانوں کے آخري سرے ملا کر محرابيں سي بنا ليتے تو جھکي ہوئي ديواروں کے سائے ميں بيٹھے ہوئے کسان مسکراتے اور خشک تمباکو کو ہتھيليوں سے ملتے ہوئے يا کھيس کے دھاگوں ميں بل ڈالتے ہوئے کہتے، بابا عمرو کھانسا ہے۔
بابا عمرو کي کھانسي بہت گونجيلي تھي، يوں معلوم ہوتا تھا جيسے تانبے سے بنے ہوئے کنوئيں ميں يکبار چند پتھر گر پڑے ہيں۔۔۔۔۔وہ اپنے جھونپڑے کي چوکھٹ پر بيٹھا بکريوں کے بال بٹتا رہتا اور جب کھانستا تو پسليوں کو دنوں ہاتھوں سے جکڑ ليتا، اس زور سے تھوکتا کہ اس کي مونچھوں کے جيھکے ہوئے بال لوہے کے تنے ہوئے تار بن جاتے، خربوزے کے مرجھائے ہوئے چھلکوں کے گالوں پر چھريوں کا جال سا تنا جاتا، اور جھکي ہوئي بھوسلي بھووں کے نيچے سے ندي کنارے کے گول کنکروں کي سي آنکھوں پرپاني کي پتلي سي لہر تير جاتي، پڑوسن کے بچے تالياں بجاتے اور چلاتے، بابا عمرو کھانسا ہے۔۔۔۔۔۔بابا عمرو کے کانوں ميں ان چيخوں کي بھنک پڑجاتي تو بکريوں کے گولے پر بے تابانہ انگلياں پھيرتا، رسي ميں اتنے بل ڈالتا کہ وہ تن کہ ٹيڑھي ہوجاتي اور پھر پاس ہي بيٹھي ہوئي بلي کو گردن سے پکڑ کر اپني جھولي ميں بٹھا ليتا اور کہتا بابا عمرو کيا کھانسا، مداري نے پٹارے سے ڈھکنا ہٹا ديا، چھچھوندر کہيں کے ديکھوں گا ميري عمر کو پہنچ کر کيسے نہيں کھانستے، ميں بھي تو جب جواني ميں کھانستا تھا تو ايسا لگتا تھا جيسا کوئي طبلہ بجا رہا ہے۔
اچانک پڑوس کي ايک لڑکي لپک کر گھر سے نکلتي اور جب بابا عمرو کو اپنے آپ سے سرگوشياں کرتے ديکھتي تو آگے بڑھ کر کہتي، بابا عمرو ميں آ گئي۔
بابا عمرو چونک اٹھتا اور پھر اس کے لبوں پر ايسي جناتي مسکراہٹ نمودار ہونے لگتي جيسے ٹوٹے پھوٹے قبرستان ميں چاندني، کہتا ميں جانتا تھا ميري وليتو آئے گي، تو اتني دير تک کيا کرتي رہي وليتو بيٹا؟
ہمارے گھر چاول پکے ہيں، نھني وليتو تالي بجا کر کہتي، ميٹھے چاول ۔۔۔۔۔۔۔لے آئوں تمہارے لئے بابا عمرو؟ہيں بابا عمرو؟
چاول قابض ہوتے ہيں، وہ ہونٹ سيکٹر کر کہتا اور جب لڑکي کے صاف چہرے پر انکار کے صدمے کا احساس شفق کي پھوار سي چھڑک ديتا تو وہ انداز گفتگو بدل کر کہتا، پر وليتو تيري خاطر مٹھي بھر کھا لوں گا ميں بھي، وليتو بچي کا جي برا کروں، تو کہا جائو ميں بڈھا کھوسٹ؟
نھني وليتو اچھلتي کودتي اپنے گھر ميں گھس جاتي، گھڑۓ کے ڈھکنے پر مونگ کي گھنگھنياں ڈالے پلٹتي اور بابا عمرو کے سامنے گھٹنوں پر ٹھوڑي رکھے بانہوں کو پنڈليوں پر لپيٹے بيٹھ جاتي، بابا عمرو چاولوں کے تصور کو منگ ميں بدلتے ديکھ کر يوں ہنستا جيسے نيا نيا رہٹ رک رک کر چل رہا ہو اور پھر اس کے قہقہے گونجيل کھانسي ميں تبديل ہوجاتے، پسليوں کو دونوں ہاتھوں سے جکڑ کر سامنے پڑوسي کي ديوار پر چٹاخ سے تھوک کر کہتا، يہ چاول کہاں سے آئے نھنو؟
کرپالو کي دکان سے، ويستو پلکيں جھپکا کر مسکراتي۔
اور بابا عمرو کہتا ميں سمجھا وليتو نے ولايت سے چاول منگائے ہيں۔۔۔۔۔
گائوں بھر ميں مشہور تھا کہ بابا عمرو کا دل بھٹيارن کے توے کي طرح کالا ہے، اس بڈھے نے کسي سے محبت نہيں کي، يہ دوزخي ہے دوزخي !
بابا عمرو نے محنت مزدوري کرکے جواني گزاري ، ادھيڑ عمر ميں شادي کي، چار مہنيوں کے بعد بيوي دق ميں مبتلا ہوگئي اور جب مري تو بابا عمرو کو خدا کا شکر ادا کرتے سنا گيا کہتے ہيں بيوي کو دفنا کر جب وہ گائوں ميں آيا تو سيدھا مسجد ميں جا گھسا اور شکرانے کے نفل ادا کئے اور ہاتھ اٹھا کر بلند آواز ميں دعا کي، ميرے اللہ تو بڑا پروردگار ہے اس لئيے شکايت فضول ہے، تو جو کرتا ہے، اچھا کرتا ہے، تيري مرضي يہي تھي، تو ميں کون ہوتا ہوں ناک بھوں چڑھانے والا، شکر ہے تيرا، شکر ہے، شکر ہے!!!
مولوي جي نے نماز جنازہ کے رپوں کو جيب ميں ٹٹول کر کہا اسے کہتے ہيں توکل !!!
اور کسان جو توکل کا مطلب نہيں جانتے تھے بولئے، "دل ہي کوئلہ ہوگيا کم بخت کا، کچھ آنچ ہوتي اس ميں تو جواني ميں بياہ کر ليتا، اب تک بچے جوان ہوتے، وہ کماتے يہ کھاتا اور اللہ کا نام جپتا، بے وقوف ہے، سودائي ہے، سڑي ہے، بھوت کا سايہ ہے بے چارے پر!"
بابا عمرو نے زندگي بھر ميں تين چيزوں سے محبت کي، خدا سے، نھني وليتو سے اور بوڑھي بلي شکري سے، جواني ميں ايک لڑکي سے انس پيدا ہوا تھا، کہ وہ پرديس بياہ دي گئي اور محبت کي نوميدہ کلي بابا عمرو کے دل ميں گھٹ کر مرجھائي اور خاکستر بن کر رہ گئي۔
کبھي کبھي مسجد کي ديواريں ليپ آتا، گليوں سے کنکر ہٹاتا رہتا، مسافروں کيلئے گھر گھر سے روٹي مانگتا، گائوں کي معاشرتي زندگي ميں اس کا صرف يہي دخل تھا کہ کوئي مرے تو جنازے کو کاندھا دے دے، کوئي بياہا جائے تو دعائے خير ميں شريک ہو کر مٹھي بھر تل اور شکر لے نھنے بچوں ميں بانٹ دے، گائوں کا کنواں صاف کيا جائے تو جگت پر آ کر بيٹھ جائے،رسي بٹتا رہے اور گنگناتا رہے، لا الہ اللہ۔ لا الہ اللہ۔ اسے نہ سرما کي راتوں ميں چوپال کي محفليں لبھا سکتي تھيں، نہ ساون کے دنوں ميں کھليانوں کي سنگيت سبھائيں، اس کي کھانسي گائوں والوں کو اس کے وجود سے منکر نہ ہونے ديتي تھي ورنہ وہ گائوں ميں رہ کر بھي گائوں ميں نہ تھا۔
جب رات کا اندھيرا اپنے پوربي آنچل کو پوکے چشمے ميں بگھو ليتا اور کائنات کي نيندوں ميں انگڑائياں کنمنانے لگتيں، تو بابا عمرو آنکھيں کھولتا اور ديمک خوردہ دروازے کے رخنوں ميں دھندلے اجالوں کو مسکراتا ديکھتا تو آدھے گنجے سر پر ہاتھ پھير کے کلمہ پڑھتا، خرخراتي شکري کو بغل سے نکال کر پائنتي پر بٹھا ديتا، کونے ميں ايک گھڑے سے کوزہ بھرتا، وضو کرتا اور نماز پڑھتا، وہ کہا کرتا تھا، صبح کي نماز پڑھي تو سمجھو اللہ کي نگري ميں داخل ہوگئے، دوسري نمازوں کي توفيق ہو تو پڑھو، پر ہميں تو اللہ کي نگري کا ايک کونہ چاہئے، جيسے يہاں رہے ويسے وہاں بھي کہيں سمٹے پڑے رہيں گے بس صبح کي نماز قضا نہ ہو۔
جب شفق کا سيلاب مدھم پڑجاتا اور منڈيريوں اور پيڑوں پر چڑياں چراچراتيں تو وہ کمر پر ہاتھ باندھے قريب کے کھيتوں ميں گھومنے نکل جاتا، کبھي کبھي شکري بھي اس کے ساتھ ہو ليتي، مينڈوں کے سوراخوں کو سونگھتي، نرم نرم گھاس پر لوٹتي اور پھر بابا عمرو کے پائوں سے لپٹ کر اس کے ٹخنوں سے اپنے ريشميں پنجے رگڑتي، بابا عمرو مسکرا کر کہتا، ہٹ جا شکري !۔۔۔۔۔۔۔۔اور جب شکري لپک کر کھيت کے پرلے پر پہنچتي اور لمبي تھر تھراتي ميائوں کرتي، تو بابا عمرو ہنس کر کہتا، شرير!
واپس آ کر آٹا گوندھتا، روٹي پکاتا اور پياز، گڑيا وليتو کے ہاں کي دال سے کھانا کھاتا، پچھلي کمائي ميں سے کبھي کبھي ايک پيسہ نکالتا اور کرپالو کي دکان سے شکر بھي لے آتا، کھانے سے فارغ ہو کر رسياں بٹتا، فضا ميں تيرتي ہوئي ابابيلوں کو ديکھتا جو دور سے نھني مني قوسيں سي معلوم ہوتيں، رسي بٹتے بٹتے تھک جاتا تو شکري کوگود ميں بٹھا ليتا، گردن سے چمٹا ليتا، اس کے چاروں پنجے ہتھيلي پر جما کر اسے نچاتا اور پھر اس کي نيلي آنکھوں ميں آنکھيں ڈال کر گاڑ کر کہتا۔
شکري تو بچي کچي شکر چاٹتے چاٹتے شرير ہوگئي ہے، ميائوں کرتي ہے؟ مسمي کہيں کي،ديکھ چڑياں نہ کھايا کر، ميں نے ديکھا ہے کہ جس روز تو نے چڑيا کھائي تجھے بد ہضمي ضرور ہوئي ہے، ميرے ساتھ ايک دو لقمے زہر مار کرليا اور اللہ اللہ کيا کر، سمجھي؟۔۔۔۔۔۔۔۔شکري آنکھوں کو نيم وا کرکے ايک بہت لمبي ميائوں کرتي اور اپنا جسم بابا عمرو کے مرجھائے ہوئے بازو سے رگڑتي، بابا عمرو خوش ہو کر ہنستا اور کھانستا نيا نيا رہٹ رک رک کر چلنے لگتا، تنابے کے کنوئيں ميں پتھر لڑھکنے لگتے، وليتو آنکلتي تو اس سے عجيب عجيب باتيں کرتا، نھنو تو نے مجھے را کے بار ياد کيا؟
وليتو اسکے گھٹنے پر ٹھوڑي ٹيک کر کہتي، دس بار، بيس بار، چار بار۔
وہ ہنستا تو وليتو کہتي بابا عمرو ميں نے نئي گڑيا بنائي ہے، دکھائوں؟
بابا عمرو ميري نئي گڑيا ہے نا؟وہ بولتي ہے، نا بابا عمرو وہ کہتي ہے بابا عمرو بڑا اچھا بابا عمرو ہے۔
ٹھيک کہتي ہے، تمہاري گڑيا، بابا عمرہ کہتا، بابا عمرو سچ مچہ بہت ہي اچھا بابا عمرہ ہے، پر تو خود کيا سمجھتي ہے بابا عمرو کو؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔بتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔بابا عمرو کيسا ہے؟
بابا عمرو بابا عمرو ہے بس! وہ کچھ سوچ کر کہتي عيد کب آئے گي؟
ہيں بابا عمرو؟
بابا عمرو انگليوں پر حساب کرکے کہتا بس کوئي دس دن کم پانچ مہينے بعد۔
اور نھني وليتو ہونٹ سکيڑ کر کہتي، کل کيوں نہيں آتي بابا عمرو؟ ہم تو کل عيد منائيں گے۔
کيوں نہيں؟کيوں نہيں؟بابا عمرو رسي بٹنا بھول جاتا، ابھي کيوں نہ مناليں، ميں اس ٹہنے پر جھولا ڈال دوں گا تمہيں، تم گھر سے پکانا حلوہ۔
بس بس کرتا سوجي حلوہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم پينگ بڑھانا ميں حلوہ کھائوں گا۔
ميں بھي کھائوں گي حلوہ بابا عمرو وليتو بابا عمرو کے کاندھوں پر اپني کہنياں ٹيک ديتي ہے۔
بابا عمرو کہتا ہے، اچھا تو پينگ بڑھائوں گا اور اگر ميرے ہاتھ چھوٹ گئے تو جانتي کہا گروں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حلوے پر۔۔۔۔۔۔۔
وليتو چہکنے لگتي اور پھر اچانک سنجيدہ ہو کر کہتي، بابا عمرو۔۔۔۔۔۔۔۔نئے نئے کپڑے بھي ہوں گے،ہے نا؟
ہاں۔
اور گڑياں۔
ہاں۔
اور پٹاخے؟
ہاں ہاں
اور پھلجھڑياں؟
ہاں ہاں پھلجڑياں بھي۔
وليتو تالياں بجاتي ناچتي گھر کي طرف دوڑنے لگي اور پکارتي عيد آ گئي، بابا عمرو کہتا ہے!اچھا بابا عمرو!
شام پڑے تک وليتو اور شکري اس کا دل لبھاتيں، اندھيرا پڑتے ہي وہ کھانا کھاتا، کڑوے تيل کا ديا جلا کر لہ الہ الا اللہ کا ورد کرتا اور جب سونے لگتا تو پکارتا، شکري بي، ہے شکري بي۔
ميائوں چوکھٹ پر سے آواز آتي۔
اوپر آجا، بابا عمرو پيار سے کہتا۔
شکري اچک کر بابا عمر کي بغل ميں گھس جاتي اور خر خر کي لوري اس پر غنوندگي سي طاري کرديتي۔
ايک روز وہ دير تک گلي کے اس نکڑ کو پلٹ پلٹ کر ديکھتا رہا جہاں سے وليتو تالياں بجاتي ناچتي نمودار ہو کرتي تھي، جب سائے ڈھلنے لگے تو گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھا، رسي اندر کھاٹ پر پھينک دي اور وليتو کے گھر کي طرف طل ديا، شکري اسکے ساتھ ساتھ تھي۔
آنگن ميں قدم دھرا تو ديکھا وليتو کھاٹ پر پڑي کراہ رہي ہے، اس کا باپ اسکے سرہانے بيٹھ کر تسبيح کررہا ہے اور ماں قريب ہي الائو پر اينٹ کا ايک ٹکڑا گرم کرہي تھي۔
وليتو کا باپ کہہ رہا تھا، ابھي بلا ليتا ہوں بابا عمرو کو، پر اسکي کھانسي بڑي خراب ہے نا تمہيں نيند نہيں آئے گي۔
ميں آ گيا ہوں نھو، ميں بالکل نہ کھانسوں گا يہاں، بابا عمرو شکري کو اپنے پائوں سے الگ کرتے ہوئے بولا۔
وليتو مسکرانے لگي اور دونوں ہاتھ اٹھا کر بولي، بابا عمرو بڑا اچھا بابا عمرو ہے۔
باب عمرو کي آنکھيں بھيگ گئيں بولا، ميں حيران تھا وليتو بيٹي نے آج ميري خبر کيوں نہ لي اسي فکر ميں کئي بار رسي کو الٹے بل ديتا رہا، کئي بار شکري نے بھي ميائوں کي جيسے وليتو کو پکار رہي ہو، وہ ري نھنو، تم بيمار ہو گئيں اور مجھے پتہ تک نہ چلا کيا ہوگيا اسے؟
وليتو کا باپ بولا۔ کل شام سے پيٹ ميں درد کي شکايت کر رہي تھي، صبح کو اٹھي تو بخار سے تپ رہا تھا سارا جسم، کئي بار تميں ياد کيا، پر ميں نے کہا تم پريشان ہو جائوں گے، کب سے تمہارے نام کي رٹ لگا رکھي ہے، کہتي ہے، بابا عمرو بڑا اچھا بابا عمرو ہے، بابا عمرو پھلجھڑياں لا دے گا۔
ہاں ہاں پھلجڑياں بابا عمرو پھلجڑياں لا دو نا، وليتو نے اپنا تپتا ہوا نھنا ہاتھ بابا عمرو کي مرجھائي ہوئي انگليوں پر رکھ ديا۔
وليتو کا باپ بولا، کرپالو کي دکان پر پھلجڑياں ہيں نہيں، مسجد کي پرلي طرف گاموں کے بيٹے وارث نے دکان کھولي ہے، پر گڑ اور تمباکو کے سوا اور دھرا کيا ہے، وہاں قصبے ميں کوئي جانے والا ملتا نہيں، اور وليتو ہے کہ بابا عمرو اور پھلجڑيوں کو بھولتي نہيں، بابا عمرو تو مل گيا اسے، اب پھلجڑياں کہاں سے آئيں؟
قصبے سے بابا عمرو بولا۔
پرلائے گا کون؟
ميں۔
تم۔
ہاں ہاں ميں۔
پر بابا وہ گھٹا ٹوپ بادل اٹھ رہا ہے اتر سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ميں تو کہتا ہوں پل بھر ميں جل تھل ايک ہوجائيں گے، تم بڈھے نڈھال آدمي کہاں بھٹکتے پھرو گے؟
اچانک وليتو پکاري بابا عمرو پھلجڑياں اچھي سي،بہت اچھي سي۔
جو نيلے پيلے تارے برسائيں؟ بابا عمرو وليتو پر جھک گيا۔
ہاں ہاں بابا عمرو۔
جو رات کو دن کرديں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوں۔
جو کر پالو کي دکان جلا ديں؟
ہاں ايسي ہي، کرپالو بڑا برا ہے، بابا عمرو بڑا اچھا ہے۔
تو ميں ابھي آيا۔
بابا عمرو اٹھا ، شکري اسکے ساتھ ہولي، وليتو کے ماں باپ نے اسے بہتر سمجھايا مگر وہ بولا، چار ہي تو قدم ہيں، اور اگر وليتو کيلئے ولايت بھي جانا پڑا تو سمندروں کو چيرتا نکل جائوں گا، ميں ايسا گيا گزرا نہيں ہوں، اچھا بھلا ہوں، کھانسي نہ ہوتي تو قرآن مجيد کي قسم لاہور سے ہو آتا ايک دن ميں۔
اور جب وليتو کے باپ نے اسے پھلجھڑيوں کيلئے رقم دينا چاہي تو وہ بے تابانہ ہاتھ جھٹک کر بولا، ميرے من جو بات آئي ہے وہ کہنے کي نہيں ورنہ کہہ ديتا، ميں تمہارے لئے غير سہي وليتو کيلئے نہيں۔
جھونپڑے ميں پہنچ کر اپني پونجي سے اٹھني نکالي، شکري کو بڑی مشکل سے اندر بھٹايا اور دروازہ بند کرکے قصبے کو چل ديا۔
ابھي وہ گائوں سے ايک ہي کوس دور گيا ہوگا کہ تيز ہوا سے درخت انگڑائيان لينے لگے، خشک پتے کھڑکھراتے ہوئے ٹوٹے اور زمين پر لوٹ پوٹ ہونے لگے، بادل دھاڑا اور بوندا باندي شروع، مگر بابا عمرو لمبے لمبے ڈنگے بھرتا، عصا ٹيکتا بڑھتا چلا گيا اور جب قصبے ميں پہنچا تو ٹھٹھرہا تھا اٹھني کي پھلجڑياں خريد کر چادر ميں لپيٹيں اور تہمد کے کونے ميں اڑس کر پلٹا، يوں چلا جيسے بيس بائيس سال کا گھبرو اڑا جا رہا ہو، گائوں کے قريب برساتي ندي گرج رہي تھي، پھلجھڑيوں کو پگڑي ميں لپيٹ کر چکراتے ہوئے پاني کو چير گيا۔
ابھي گائوں ميں نہيں پہنچنے پايا تھا کہ گھٹانے ايک دم اپنا دامن نچوڑ ديا، يوں معلوم ہوتا تھا جيسے آسمانوں سے سمندر انڈيل دئيے گئے ہيں، بوندوں کي جگہ آبشار گرنے لگے۔
بابا عمر کو پھلجڑيوں کي اتني فکر تھي کہ بدن پر صرف تہمد کو رہنے ديا اور باقي سب کپڑوں ميں پھلجڑيوں کو لپيٹ ليا، کبھي بغل ميں دباتا، کبھي مٹھي میں جکڑ ليتا، پھسلتا تو پھلجڑيوں والا ہاتھ اوپر ہي رکھتا، جب وہ گائوں ميں پہنچا تو چوپال کے دروازے پر بيٹھے ہوئے لوگوں نے زور زور سے قہقہے لگائے اور بولے، بڈھا ويسے ہي گھنائونا ہے، پر جب بھيگ جاتا تو توبہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بالکل بھوت۔۔۔!
بابا عمرو کوئي جواب دينے کيلئے ٹھٹکا مگر فورا اس کے دماغ ميں پھلجڑياں چھوٹنے لگيں، قدم بڑھائے او جب وليتو کے گھر پہنچا تو دہليز الانگتے ہي پوچھا کيسي ہے نھنو؟
اور پھر وليتو کو مسکراتا ديکھ کر اس نے پھلجڑياں پر لپيٹے ہوئے کپڑے کو کھولہ، سولہ پھلجڑياں کا انبار سا وليتو کے سامنے رکھ ديا، داڑھي سے پاني نچوڑ کر بولا، چھوڑوں ايک پھلجڑي؟۔۔۔۔۔۔۔۔ديا سلائي دينا بھيا!
وليتو کے ماں باپ بڈھے کي حالت ديکھ کر بھونچکا سے رہ گئے، اس کے اردگرد نھني نھني ندياں بل کھاتي فرش کے چاروں طرف رينگي جا رہي تھيں، سر کے بچے کچے بالوں کا پاني اکھٹا ہو کر اس کي ناک کے بانسے پر سے چاندي کا ايک تار بناتا اس کے کپکپاتے ہوئے سينے پر گر رہا تھا، وليتو کي ماں نے بڑھ کر ديا سلائي کي ڈبيا اٹھا دي، باپ نے بابا عمرو کے قريب آ کر کہا، پر بابا تم تو آگ تو سينک لو، ٹھٹھر رہے ہو، نيلے پڑ رہے ہو۔
کون ٹھٹھر رہا ہے؟کون نيلا پڑا رہا ہے؟ بابا عمرو ديا سلائي جلا کر بولا، واہ کيوں ري نھنو؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کانپتے ہاتھ بڑي مشکل سے ديا سلائي اور پھلجڑي کو ايک دوسرے کے قريب لاسکے اور جب پھلجڑي چھوٹي تو بابا عمرو کو وہ ہنسي چھوٹي، وہ ہنسي چھوٹي کہ چہکتي ہوئي وليتو کے ہاتھ سے پھلجڑياں تھما کر زمين پر بيٹھ گيا اور جب ہنسي نے گونجيلي کھانسي کي شکل اخيتار کرلي، تو وہ سينےکو دونوں ہاتھوں سے دباتا اٹھا اور بولا، وليتو بيٹا مجھے تو کھانسي آنے لگي، کل صبح پھر آئوں۔۔۔۔۔گا ہيں نھنو؟
بابا عمرو بڑا اچھا ہے، وليتو بستر پر اٹھ بيٹھي، بابا عمرو ايک پھلجڑي تم بھي لے لو۔
ہنستا کنپتا، کھانستا وہ وليتو کے قرب آيا، پھلجڑي لے کر مٹھي ميں دبائي اور اپني جھونپڑي کو چل ديا جہاں شکري اپنے نکيلے پنجوں سے دروازے کو لگاتا کھرچ رہي تھي۔
آدھي رات تک وليتو کا بخار بھي اتر گيا اور درد بھي رک گيا اور جب صبح کو اٹھي تو بابا عمرو کے ہاں جانے کو مچل پڑي، باپ نے اسے اٹھايا اور بابا عمرو کے پاس لے چلا۔
جھونپڑے کا دروازہ کھلا تھا، دونوں بابا عمرو کے قريب پہنچے تو ايک عجيب سي مکھي باب عمرو کے ادھ کھلے منہ سے نکلي اور اس کے چہرے کا طواف کرتي وليتو کے سر سے ٹکراتي دروازے سے باہر نکل گئي، بابا عمرو کے پيٹ پر بيٹھي ہوئي بلي نے زور س ميائوں کي اور پنجہ مار کر بابا عمرو کي داڑھي ميں پھنس ہوئي پھلجڑي کو نيچے گرا ديا۔
تحرير : احمد نديم قاسمي
پيشکش: شعبه تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
ماسي گُل بانو
آنندي