عہد طفلی
تھے دیار نو زمین و آسماں میرے لیے |
وسعت آغوش مادر اک جہاں میرے لیے |
تھی ہر اک جنبش نشان لطف جاں میرے لیے |
حرف بے مطلب تھی خود میری زباں میرے لیے |
درد ، طفلی میں اگر کوئی رلاتا تھا مجھے |
شورش زنجیر در میں لطف آتا تھا مجھے |
تکتے رہنا ہائے! وہ پہروں تلک سوئے قمر |
وہ پھٹے بادل میں بے آواز پا اس کا سفر |
پوچھنا رہ رہ کے اس کے کوہ و صحرا کی خبر |
اور وہ حیرت دروغ مصلحت آمیز پر |
آنکھ وقف دید تھی ، لب مائل گفتار تھا |
دل نہ تھا میرا ، سراپا ذوق استفسار تھا |
شاعر کا نام : علامہ محمد اقبال
پیشکش : شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان
متعلقہ تحریریں:
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
عصرِ حاضر ملک الموت ہے، تیرا جس نے