ترے ملنے کو بے کل ہو گۓ ہیں
ترے ملنے کو بے کل ہو گۓ ہیں |
مگر یہ لوگ پاگل ہو گۓ ہیں |
بہاریں لے کے آۓ تھے جہاں تم |
وہ گھر سنسان جنگل ہو گۓ ہیں |
یہاں تک بڑھ گۓ آلامِ ھستی |
کہ دل کے حوصلے شل ہو گۓ ہیں |
کہاں تک لاۓ ناتواں دل |
کہ صدمے اب مسلسل ہو گۓ ہیں |
نگاہِ یاس کو نیند آ رہی ہے |
مژہ پر اشک بوجھل ہو گۓ ہیں |
انھیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ |
یہاں جو حادثے کل ہو گۓ ہیں |
جنھیں ہک دیکھ کر جیتے تھے ناصر |
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گۓ ہیں |
شاعر کا نام : ناصر کاظمی
متعلقہ تحریریں:
کیا دن مجھے عشق نے دکھاۓ
رونقیں تھیں جہاں میں کیا کیا کچھ
حاصلِ عشق ترا حُسنِ پشیماں ہی سہی