• صارفین کی تعداد :
  • 4444
  • 4/30/2011
  • تاريخ :

حضرت فاطمہ (س) کے گھر کی بے احترامی

حضرت فاطمہ(س)

ان تمام احکام کی بار بار تاکید کرنے کے بعد افسوس کہ بہت سے لوگوں نے اس کے احترام سے چشم پوشی کرلی اور اس کی بے احترامی کی جبکہ یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے جس سے چشم پوشی کی جائے۔

اس سے متعلق اہل سنت کی کتابوں سے چند روایات کو ہم یہاں پر بیان کرتے ہیں تاکہ یہ بات روشن ہوجائے کہ حضرت زہرا (علیھا السلام) کے گھر کی بے حرمتی اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات تاریخی اورحقیقی ہیں ، نہ ایک افسانہ! اور دوسری بات یہ کہ خلفاء کے زمانے میں اہل بیت(علیہم السلام) کے فضایل و مناقب لکھنے سے سخت منع کیا جاتا تھا لیکن اس بناء پر کہ ”ہر چیز کی حقیقت خودا س چیز کی حفاظت کرتی ہے“ یہ حقیقت بھی تاریخی اور حدیثی کتابوں میں زندہ اور محفوظ ہے، ہم یہاں پر دلایل کو زمانے کی ترتیب کے ساتھ پہلی صدی سے شروع کریں گے اور عصر حاضر کے موْلفین تک پہونچائیں گے۔

 اہل سنت کے مشہور محدث ،ابن ابی شیبہ کی کتاب ”المصنف“

ابوبکر بن ابی شیبہ (۲۳۵۔۱۵۹) کتاب المصنف کے موْلف صحیح سند سے اس طرح نقل کرتے ہیں:

انہ حین بویع لابی بکر بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کان علی و الزبیر یدخلان علی فاطمة بنت رسول اللہ، فیشاورونھا و یرتحعون فی امرھم۔ فلما بلغ ذلک عمر بن الخطاب خرج و دخل علی فاطمة، فقال: یا بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ ) و اللہ ما احد احب الینا من ابیک و ما من احد احب الینا بعد ابیک منک، و ایم اللہ ما ذاک بمانعی ان اجتمع ھوْلاء النفر عندک ان امرتھم ان یحرق علیھم البیت“۔

جس وقت لوگ ابوبکر کی بیعت کر رہے تھے، علی اور زبیرحضرت فاطمہ زہرا کے گھر میں گفتگو اور مشورہ کر رہے تھے اور یہ بات عمر بن خطاب کو معلوم ہوگئی۔ وہ حضرت فاطمہ کے گھر آیا اور کہا : اے رسول کی بیٹی، سب سے محبوب انسان ہمارے نزدیک تمہارے والد گرامی تھے اور ان کے بعد اب تم سب سے زیادہ محترم ہو لیکن خدا کی قسم یہ محبت اس بات کے لئے مانع یا رکاوٹ نہیں بن سکتی کہ یہ لوگ تمہارے گھر میں جمع ہوں اور میں اس گھر کو ان لوگوں کے ساتھ جلانے کا حکم نہ دوں۔

اس جملہ کو کہہ کر باہر چلا گیا جب حضرت (علی علیہ السلام) اور زبیر گھر میں واپس آئے تو حضرت فاطمہ زہرا نے حضرت علی اور زبیر سے کہا: عمر یہاں آیا تھا اور اس نے قسم کھائی ہے کہ اگر تم دوبارہ اس گھر میں جمع ہوئے تو تمہارے گھر کو ان لوگوں کے ساتھ آگ لگا دوں گا، خدا کی قسم ! اس نے جو قسم کھائی ہے وہ اس کو انجام دے کر رہے گا ۔

دوبارہ وضاحت کرتا ہوں کہ یہ واقعہ المصنف نامی کتاب میں صحیح سند کے ساتھ نقل ہوا ہے۔

 اہل سنت کے دوسرے بزرگ محدث، بلاذری کی کتاب”انساب الاشراف“

مشہور مولف اور تاریخ نگار ،احمد بن یحیی بن جابر بلاذری (م ۲۷۰) اس تاریخی واقعہ کو اپنی کتاب انساب الاشراف میں اس طرح نقل کرتا ہے:

”ان ابابکر ارسل الی علی یرید البیعة فلم یبایع، فجاء عمر و معہ فتیلة! فلقیتہ فاطمة علی الباب فقالت فاطمہ: یابن الخطاب، اتراک محرقا علی بابی؟ قال : نعم، و ذلک اقوی فیما جاء بہ ابوک...“۔

ابوبکر نے حضرت علی (علیہ السلام) کو بیعت کیلئے بلوایا، لیکن حضرت علی علیہ السلام نے بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد عمر ، مشعل لے کر وہاں سے نکلا اور حضرت فاطمہ کے گھر کے دروازے کے سامنے حضرت فاطمہ کے سامنے کھڑا ہوگیا، حضرت فاطمہ (س) نے کہا : اے خطاب کے بیٹے، کیا تم ہمارے گھر میں آگ لگا دو گے؟ ! عمر نے کہا : ہاں ، یہ کام اس چیز کی مدد کرے گا جس کے لئے تمہارے والد مبعوث ہوئے تھے!۔

 ابن قتیبہ اور کتاب ”الامامة والسیاسة“

مشہور مورخ عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ دینوری(۲۱۲۔۲۷۶)تاریخ اسلام کا سب سے زیادہ لکھنے والا انسان اور کتاب تاویل مختلف الحدیث اور ادب الکاتب وغیرہ کا موْلف ہے وہ ”الامامة والسیاسة“ میں اس طرح لکھتا ہے:

ان ابابکر(رض)تفقد قوما تخلفوا عن بیعتہ عند علی کرم اللہ وجہہ فبعث الیھم عمر فجاء فناداہم و ھم فی دار علی، فابوا ان یخرجوا فدعا بالحطب و قال : والذی نفس عمر بیدہ لتخرجن او لاحرقنھا علی من فیھا، فقیل لہ : یا ابا حفص ان فیھا فاطمة فقال، وان! ۔

ابوبکر نے ان لوگون کی جستجو کی جو ان کی بیعت کے منکر ہو کر حضرت علی علیہ السلام کے گھر میں جمع ہوگئے تھے اورپھر عمر کو انہیں بلانے کے لئے بھیجا، وہ حضرت علی(علیہ السلام) کے گھر کے دروازہ پر آیا اور سب کو آواز لگائی کہ باہر آجاؤ، اور وہ لوگ گھر سے باہر نہیں نکلے، اس وقت عمر نے لکڑیاں منگوائیں او رکہا: خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر باہر نہیں آؤ گے تو میں گھر کو آگ لگا دوں گا۔ کسی نے عمر سے کہا: اے حفص کے باپ(عمر کی کنیت) اس گھر میں پیغمبر(ص) کی بیٹی فاطمہ (س) ہیں ، عمر نے کہا : کوئی بات نہیں۔

ابن قتبیہ نے اس واقعہ کو بہت دردناک بیان کیا ہے وہ کہتا ہے :

ثم قام عمرفمشی معہ جماعة حتی اتوا فاطمة فدقوا الباب فلما سمعت اصواتھم نادت یا علی صوتھا یا ابتاہ یا رسول اللہ ماذا لقینا بعدک من ابن الخطاب و ابن ابی القحافة فلما سمع القوم صوتھا و بکائھا انصرفوا و بقی عمر و معہ قوم فاخرجوا علیا فمضوا بہ الی ابی بکر فقالوا لہ بایع، فقال: ان انا لم افعل فمہ؟ فقالوا : اذا واللہ الذی لا الہ الا ھو نضرب عنقک...۔

عمر ایک گروہ کے ساتھ حضرت فاطمہ کے گھر آیا اور دروازہ کھٹکھٹایا، جس وقت حضرت فاطمہ نے ان کی آواز سنی تو بلند آواز سے کہا : اے رسول خدا تمہارے بعد ، خطاب اور ابو قحافہ کے بیٹے نے کیا کیا مصیبتیں ہمارے اوپر ڈالی ہیں، جو لوگ عمر کے ساتھ آئے تھے انہوں نے جب حضرت فاطمہ کی آواز اور ان کے رونے کی آواز کو سنا تو واپس چلے گئے، لیکن عمر کچھ لوگوں کے ساتھ وہیں کھڑا رہا اور پھر وہ حضرت علی کو گھر سے باہر لے آئے اور ابوبکر کے پاس لے گئے اور ان سے کہا : بیعت کرو، علی (علیہ السلام) نے کہا : اگر بیعت نہ کروں تو کیا ہوگا؟ انہوں نے کہا : اس خدا کی قسم جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے، تمہیں قتل کردیں گے...۔

تاریخ کا یہ حصہ شیخین کے چاہنے والوں کے لئے بہت سخت اور ناگوار ہے ، لہذا بہت سے لوگوں نے ابن قتیبہ کی اس کتاب سے انکار کردیا جبکہ ابن ابی الحدید، فن تاریخ کا استاد، اس کتاب کو ابن قتیبہ ہی کی بتاتا ہے اور ہمیشہ اس سے مطالب کو نقل کرتا ہے ، افسوس اس کتاب میں بہت زیادہ تحریف ہوچکی ہے اور اس کے بہت سے مطالب کو چھاپتے وقت حذف کردئیے ہیں جب کہ وہ سب مطالب ، ابن ابی الحدید کی شرح نہج البلاغہ میں موجود ہیں۔

زرکلی نے بھی اپنی کتاب الاعلام میں اس کتاب کو ابن قتیبہ ہی کی کتابوں میں سے شمار کیا ہے اور مزید کہتا ہے کہ اس کتاب کے متعلق بہت سے علماء کا خاص نظریہ ہے یعنی وہ دوسروں کی طرف شک و تردید کی نسبت دیتا ہے اپنی طرف نہیں، الیاس سرکیش نے بھی اس کتاب کو ابن قتیبہ ہی کے ایک کتاب جانا ہے۔

اردو مکارم ڈاٹ  آئی آڑ


متعلقہ تحریریں:

فاطمہ زہرا (س) عالم کے لئے نمونہ عمل

حضرت فاطمہ کا انصار سے خطاب کے آثار

حضرت فاطمہ کا انصار سے خطاب

مسجد نبوی میں فاطمہ زھرا (ع) کا تاریخ ساز خطبہ (حصّہ چهارم)

مسجد نبوی میں فاطمہ زھرا (ع) کا تاریخ ساز خطبہ (حصّہ سوّم)