• صارفین کی تعداد :
  • 4264
  • 10/24/2010
  • تاريخ :

حضرت فاطمہ کا انصار سے خطاب کے آثار

حضرت فاطمہ(س)

آپ کے اس خطبہ کا اثرلوگوں پر خاص طور سے انصارپر بھت هوا، کیونکہ یہ خطبہ واقعیت اور صداقت پر مبنی تھا اور اس خطبہ میں قرآن کریم اور سنت نبوی سے دلائل پیش کئے گئے  تهے کہ حضرت پر کیا کیا ظلم وستم هوئے، اس خطبہ میں حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت بیان کی گئی اور باقاعدہ دلیلوں کے ذریعہ یہ ثابت کیا گیا کہ آپ ھی خلافت رسول کے حقدار  تهے، اور جس وقت انصار پر اس خطبہ کا اثر هوا تو حضرت علی کا نام لے لےکر چلانا شروع کیا، چنانچہ یہ دیکھ کر اھل سقیفہ نے خطرہ کا احساس کیا اور ابوبکر نے نماز جامعہ کی طرف بلایا جس پر سب دوڑے هوئے چلے گئے۔

جوھری نے جعفر بن محمد بن عمارہ سے متعدد طریقوںسے روایت کرتے هوئے کھا : جب جناب ابوبکر نے حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کا خطبہ سنا تو اس پر بھت گراں گزرا، چنانچہ منبر پر جاکر اس طرح لوگوں سے خطاب کیا :

”یہ سب کچھ جو تم لوگوں نے سنا ، اور چونکہ ھربات کا ایک مقصد هوتا  ہے، اور یہ بات زمانہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں کھاں تھی؟ پس جس نے بھی سنا هو وہ بتائے اور جس نے بھی دیکھا هو وہ گواھی دے، یہ سب کچھ مکروفریب  ہے اور اس کا گواہ اس کا شوھر  ہے، جو ھر فتنہ کی جڑ  ہے، وہ یہ کھتے ھیں کہ یہ لوگ حق وحقیقت کو پانے کے بعد زمان جاھلیت کی طرف پلٹ گئے ، اور وہ بچوں حسن و حسین (ع) کے ذریعہ مدد لیتے ھیں اور عورتوں کے سھارے نصرت ومدد چاھتے ھیں جس طرح امّ طحال  (زمان جاھلیت میں باغی اور سرکش عورت) سے اس کے اھل خانہ اس کی نازیبا حرکتوں سے خوش هوتے ھیں۔!!

آگاہ رهو کہ اگر میں چاھتا تو کھتا، او راگر کھتا تو تم مبهوت هوکر رہ جاتے، لیکن میں تو اس وقت ساکت بیٹھا هوں۔

اس کے بعد انصار کی طرف متوجہ هوکر کھا:

” اے گروہ انصار ! تم لوگوں میں سے بعض احمقوں کی گفتگومجھ تک پهونچی جو کھتے ھیں: ”ھم عھد رسول اللہ میں زیادہ حقدار  تهے، کیونکہ ھم نے تم کو پناہ دی اور تمھاری نصرت کی، اور تم آج اپنے کو زیادہ حقدار سمجھتے هو ، لیکن میں تمھاری باتوں کو چھوڑتا هوں اور ان کا کوئی اثر نھیں لیتا، اور نہ ھی مج ہے کسی چیز کا لالچ  ہے، مگر یہ کہ جس چیز کا میں مستحق هوں، والسلام“۔

اس کے بعد منبر سے اتر گیا۔

اس کی باتیں سن کر جناب فاطمہ وھاں سے اپنے گھر کی طرف روانہ هوگئیں۔

ابن ابی الحدید کھتے ھیں:

” حضرت ابوبکر کی اس گفتگو کو میں نے استاد ابو یحیٰ جعفر بن یحیٰ بن ابی زید بصری کے سامنے پڑھا اور سوال کیا کہ اس کلام میں کس کی طرف اشارہ  ہے تو انھوں نے کھا کہ اشارہ نھیں  ہے بلکہ واضح طور پر بیان  ہے، ابن ابی الحدید نے کھا کہ اگر واضح هوتا تو میں آپ سے کیوں سوال کرتا، یہ سن کر ابو جعفر مسکرائے اور کھا :

یہ سب کچھ حضرت علی  (علیہ السلام) کی طرف اشارہ  ہے، ابن ابی الحدید بھت تعجب سے کھتے ھیں کہ حضرت ابوبکر نے یہ سب کچھ حضرت علی علیہ السلام کی شان میں کھا  ہے ۔

ابو جعفر نے کھا کہ جی ھاں یہ سب کچھ حضرت علی  (ع) کی شان میں کھاکیونکہ وہ اس وقت کے خلیفہ اور بادشاہ  تهے۔

اس کے بعد میں نے سوال کیا کہ انصار کی گفتگو کیا تھی؟  (جس کی بنا پر جناب ابوبکر نے کھا : ”تم میں سے بعض احمقوں کی باتیں مجھ تک پهونچی) ،تو ابوجعفر نے کھا انصار نے حضرت علی علیہ السلام کی حمایت میں آواز بلند کی  (اور حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں رسول اللہ کی وصیت کو بیان کیا، یہ دیکھ کر جناب ابوبکر ڈرے اور اس کام سے روک دیا“)


متعلقہ تحریریں:

مسجد نبوی میں فاطمہ زھرا (ع) کا تاریخ ساز خطبہ (حصّہ چهارم)

خطبة الزھراء (س) بنساء المھاجرین و الاٴنصار

ہمیں خود کو پیغمبر اعظم کے خاندان سے منسوب ہونے کے لائق بنانا چاہئے

محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی محبوب بیٹی  کا یوم ولادت

 زندگي نامہ حضرت فاطمہ زہرا سلام الله عليہا

فدک اور فضائل حضرت فاطمہ زھرا(س)

 نبی اکرم(ص) کے غم میں گریہ و بکا

فاطمہ زھرا(س) محافظ دین و ولایت

 حضرت زھرا کی حکمت عملی

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا کي مختصر ليکن برکتوں سے سرشار عمر