• صارفین کی تعداد :
  • 3276
  • 6/1/2010
  • تاريخ :

خطبة الزھراء (س) بنساء المھاجرین و الاٴنصار

حضرت فاطمہ(س)

وقال سوید بن غفلة لما مرضت فاطمة الزھراء المرضة التي توفیت فیھا اجتمعت الیھا نساء المھاجرین والانصار لیعدنھا ،فسلمن علیھا فقلن لھا کیف اصبحت من علتک یابنة رسول اللّٰہ،فحمدت اللّٰہ وصلت علی ابیھا المصطفیٰ(ص) ثم قالت اٴصبحت واللّٰہ عائفة لدنیاکن قالیة لرجالکن لفظتھم بعد اٴن عجمتھم و شناٴتھم بعد ان سبرتھم فقبحا لفلول الحد واللعب بعد الجد، وقرع الصفاة وصدع القناة وخطل الآراء وزلل الاٴهواء، ولبئسما قدمت لھم انفسھم اٴن سخط اللّٰہ علیھم وفی العذاب ھم خالدون>(سورہ مائدہ ، آیت ۸۰۔) ، لا جرم والله لقد قلدتھم ربقتھا وحملتھم اٴوقتھا وشننت علیھم غارتھا فجدعا وعقرا وبعدا للقوم الظالمین۔

مدینہ کی عورتوں سے خطاب

سوید بن غفلہ کھتے ھیں کہ جس وقت جناب فاطمہ زھرا (س) مریض هوئیں اور آپ کا مرض اس قدر بڑھا کہ اسی مرض میں اس دنیا سے رحلت کرگئیں، اس وقت مھاجرین اور انصار کی عورتیں بی بی کی عیادت کے لئے آئیں اور جناب سیدہ کو سلام کیا اور آپ کی احوال پرسی کی تو آپ نے ان سے مخاطب هوکر پھلے خداوندعالم کی حمد وثناکی اور اپنے باپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر دردو وسلام بھیجا اور فرمایا: ”بخدا میری زندگی اس حال میں ھے کہ میں تمھاری زندگی کو دوست نھیں رکھتی اور تمھارے مَردوں سے بیزار هوں، ان کو آزمانے کے بعد چھوڑ دیا ھے اور ان کی بدنیتوں اور بری عادتوں کی بناپر ان سے دوری اختیار کرلی ھے۔

کتنی بری بات ھے کہ انسان ھدایت یافتہ هونے کے بعد بھی ضلالت وگمراھی کے راستہ پر چلے، حق اور نور وھدایت کو حاصل کرنے کے بعد ظلمتوں اور تاریکیوں میں جا پھنسے، وائے هو ان لوگوں پر جو حق وحقیقت کی راہ اور پیغمبر اکرم کے بتائے هوئے راستہ کو چھوڑ کر گمراہ هوجائیں! اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ابن عم (علی علیہ السلام) سے کنارہ کشی کرلیں، وہ علی (ع) جو باب مدینة العلم، مظھر تقویٰ وعدالت، صاحب شجاعت و حقیقت ھیں ۔

ویحھم اٴنّی زعزعوھا عن رواسی الرسالة، وقواعد النبوة والدلالة ومھبط الروح الامین والطبین باٴمور الدنیا والدین< اٴلا ذلک هو الخسران المبین> [1]

وما الذی نقموا من اٴبی الحسن علیہ السلام ا نقموا منہ واللّٰہ نکیر سیفہ وقلة مبالاتہ بحتفہ وشدة وطاٴتہ ونکال وقعتہ وتنمرہ فی ذات اللّٰہ عزّ وجلّ وتاللّٰہ لو مالوا عن المحجة اللائحة وزالوا عن قبول الحجة الواضحة لردھم الیھا وحملھم علیھا ولسار بھم سیراً سجحا لایکلم حشاشہ ولا یکل سائرہ ولا یمل راکبہ ولاٴوردھم منھلا نمیرا صافیا رویا فضفاضاً تطفح ضفتاہ ولا یترنق جانباہ ولاٴصدرھم بطانا ونصح لھم سرا واعلانا، ولم یکن یتحلی من الدنیا بطائل ولا یحظی منھا بنائل غیر ري الناھل وشبعة الکافل ولبان لھم الزاھد من الراغب والصادق من الکاذب۔

” کس قدر برا ھے (دنیا میں بھی) خدا ان پر غضبناک هوا اور آخرت میں بھی ھمیشہ عذاب میں رھیں گے“

واقعاً کس قدر تعجب کا مقام ھے :

ان لوگوں نے کس طریقہ سے میرے ابن عم علی ابن ابی طالب (ع) کو تنھا چھوڑکر خلافت کی مھار دوسروں کے گلے میں ڈال دی اور آپ کی مخالفت کرکے جداهوگئے، اور ان سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔

واقعاً افسوس کا مقام ھے کہ میرے ابن عم کو خانہ نشین بنادیا اور ان کے قتل کے درپے هوگئے اور واقعاً تعجب ھے کہ انھوں نے رسالت کے ستون اور بنیاد کو چھوڑ دیا، وحی کی جائے نزول کو ترک کردیا اور دنیا کے لئے دین میں اختلاف کرڈالا، ”آگاہ هوجاؤ کہ یھی لوگ خسارے میں ھیں۔“

خدا کی قسم ! ان سے دوری کی وجہ ان کی تلوار سے خوف ووحشت تھی،کیونکہ وہ جانتے ھیں کہ حضرت علی علیہ السلام قوانین اسلامی کو جاری کرنے اور حق وحقیقت کے فیصلہ کرنے میں ذرہ برابر بھی رعایت نھیں کرتے ھیں، اور تمام تر شدت اور کمالِ شجاعت واستقامت سے خداوندعالم کے احکامات کو تمام چیزوں میں جاری کرتے ھیں۔

اور اگر وہ لوگ حضرت کی پیروی کرتے تو وہ راہ مستقیم اور ھمیشگی سعادت اور دائمی خوشبختی کی طرف ھدایت کرتے، اور دیکھتے کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام ان کو بھترین طریقہ سے سیراب کرتے اور ان کو بھوک سے نجات دیتے،اور ان کی مشکلات کو دور کرتے اس طرح سے لوگوں کے ساتھ برتاؤ کرتے کہ صادق اور کاذب (جھوٹے) میں تمیز هوجاتی اور زاھد اور لالچی میں پہچان هوجاتی۔

ولو ان اھل القریٰ آمنوا واتقوا لفتحنا علیھم برکات من السماء والاٴرض ولکن کذبوا فاٴخذناھم بما کانوا یکسبون [2]

< والذین ظلموا( من هوٴلاء) سیصیبھم سیئات ما کسبوا وماھم بمعجزین>[3]

اٴلا ھلم فاستمع وما عشت اراک الدھر عجبا، وإن تعجب فعجب قولھم لیت شعری الی ایّ سناد استندوا وإلی اٴی عماد اعتمدوا وباٴیة عروة تمسکوا وعلی اٴیة ذریة قدموا واحتنکوا لبئس المولی ولبئس العشیر۔ وبئس للظالمین بدلا۔[4]

استبدلوا و اللّٰہ الذنابیٰ بالقوادم والعجز بالکاھل فرغما لمعاطس قومٍ <یحسبون انھم یحسنون صنعا۔>[5] < اٴلا انھم ھم المفسدون ولکن لا یشعرون۔> [6] ویحھم < اٴ فمن یھدی إلی الحق اٴحق اٴن یتبع اٴم من لا یھدِّی إلا اٴن یھدی فما لکم کیف تحکمون۔> [7]

”اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لاتے او رپر ھیزگار بنتے تو ھم ان پر آسمان وزمین کی برکتوں (کے دروازے) کھول دیتے مگر (افسوس) ان لوگوں نے (ھمارے پیغمبروں کو) جھٹلایا تو ھم نے بھی ان کی کرتوتوں کی بدولت ان کو (عذاب میں) گرفتار کیا۔ “

”اور جن لوگوںنے نافرمانیاں کی ھیں انھیں بھی اپنے اپنے اعمال کی سزائیں بھگتنی پڑیں گی اور یہ لوگ خدا کو عاجز نھیں کرسکتے۔“

آگاہ هوجاؤ کہ مجھے زمانہ پر تعجب نھیں ھے اور ا گرتمھیں تعجب ھے تو دیکھ لو کہ (حق سے منحرف ان) لوگوں نے کس راستہ کا انتخاب کیا ، کس دلیل کے ذریعہ استدلال کیا اور کن باتوں پر بھروسہ کیا، اور کس بل بوتہ پر اقدام کیا اور غالب هوگئے، کس کا انتخاب کیا اور کس (عظیم شخصیت) کو چھوڑ دیا”بے شک ایسا مالک بھی برا ھے اور ایسا رفیق بھی براھے۔“اور ظالمین کو برا ھی بدلا دیا جائے گا۔

تم لوگوں نے کمزوروں کو طاقتور بنادیا اور کمزوری کو طاقت سے بدل دیا، مغلوب اور ذلیل وہ قوم”جو اس خیال خام میں ھے کہ وہ یقینا اچھے اچھے کام کررھے ھیں“

اما لعمری لقد لقحت فنظرة ریثما تنتج، ثم احتلبوا ملٴ القعب دما عبیطا وذعافا مبیدا، ہنالک یخسر المبطلون ویعرف التالون غب ما اٴسس الاٴولون ثم طیبوا عن دنیاکم نفسا واطمئنوا للفتنة جاشا واٴبشروا بسیف صارم، وسطوة معتد غاشم وبھرج دائمٍ شامل واستبداد من الظالمین یدع فیاٴکم زھیدا وجمعکم حصیدا، فیا حسرتی لکم واٴنی بکم وقد عمیت علیکم،< اٴ نلزمکموھا واٴنتم لھا کارهون> [8]

قال سوید بن غفلة فاٴعادت النساء قولھا (ع) علی رجالہن فجاء الیھا قوم من المھاجرین والانصار معتذرین وقالوا یا سیدة النساء لوکان اٴبو الحسن ذکر لنا ھذا الاٴمر من قبل اٴن یبرم العھد ویحکم العقد لما عدلنا عنہ إلی غیرہ، فقالت علیھا السلام الیکم عنی، فلا عذر بعد تعذیرکم ولا امر بعد تقصیرکم“۔[9]

”بے شک یھی لوگ فسادی ھیں لیکن سمجھتے نھیں“ ۔ ”جو تمھیں دین حق کی راہ دکھاتا ھے زیادہ حقدار ھے کہ اس کے حکم کی پیروی کی جائے یا وہ شخص جو (دوسرے) کی ھدایت تو درکنار خود ھی جب تک دوسرا اس کو راہ نہ دکھائے راہ دیکھ نھیں پاتا ،تم لوگوں کو کیا هوگیا ھے تم کیسے حکم لگاتے هو۔“

اپنی جان کی قسم ان لوگوں کے کارناموں کے نتائج برے نکلے جس کی بناپر انھیں شدید فتنہ وفساد سے دوچار هونا پڑا، اور زھر ھلاھل پینا پڑا ، پس باطل خسارے میں ھیں اور باطل چھرے بے نقاب هوگئے، آخر کار اس فتنہ وفساد کی بنیاد ڈالنے والے خودھی اس کا مزہ چکھیں گے،وہ یہ فتنہ برپا کرکے مطمئن هوگئے، کیونکہ ظالمین نے ھی اس آگ کو بھڑکایا، ننگی تلواریں چھوڑیں، یھاں تک ایک دوسرے پر غلبہ کرنے لگے، اور تمھارے گروہ کو حقیر سمجھا گیا اور تمھارا سب کچھ برباد کردیا گیا، واقعاً افسوس کا مقام ھے، خدا تمھاری ھدایت کرے، تمھارے دل ٹیڑھے هوگئے ھیں، ”تو کیا میں اس کو (زبر دستی) تمھارے گلے میں منڈھ سکتا هوں“۔

سوید بن غفلہ کھتے ھیں کہ یہ خطبہ سن کر عورتیں واپس چلی گئیں اور سب کچھ اپنی مردوں سے بیان کیا تو ان میں سے مھاجرین وانصار کے بعض لوگ عذر خواھی کے لئے بی بی دوعالم کے پاس آئے اور کھا کہ اے سیدة نساء العالمین، اگر ھماری بیعت سے پھلے ابوالحسن نے ھم کو یہ سب کچھ بتایا هوتا تو پھر ھم ایسا نہ کرتے اور آپ سے دور نہ هوتے، (یعنی ثقیفہ میں بیعت نہ کرتے) ۔

تب حضرت زھرا سلام اللہ علیھانے فرمایا: تم لوگ یھاں سے چلے جاؤ کیونکہ تمھاری خطائیں قابل بخشش نھیں ھیں۔

حوالہ جات:

[1] سورہ زمر آیت ۱۵

[2] سورہ اعراف آیت ۶۹

[3] ،سورہ زمر آیت ۵۱

[4] سورہ حج آیت ۱۳

[5] سورہ کہف آیت ۱۰۴

[6] سورہ بقرہ آیت ۱۲۔

[7] سورہ یونس آیت ۳۵۔

[8] سورہ ہود آیت ۲۸

[9] احتجاج شیخ طبرسی، ص ۷۹؛دلائل الامامة، ص ۳۰؛ کشف الغمہ، ج۱، ص۱۸۰؛ بحار الانوار، ج۲۹، ص ۲۳۰؛ شرح نھج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۱۶، ص ۲۱۱۔


متعلقہ تحریریں:

فخرمریم سلام اللہ علیہا

حضرت فاطمہ زہرا (س) کا مثالی کردار