مسجد نبوی میں فاطمہ زھرا (ع) کا تاریخ ساز خطبہ (حصّہ سوّم)
حضرت فاطمہ زھرا نے فرمایا:
اے لوگو! جان لو میں فاطمہ هوں، میرے باپ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تهے، میری پھلی اور آخری بات یھی ہے، جو میں کہہ رھی هوں وہ غلط نھیں ہے اور جو میں انجام دیتی هوں بے هودہ نھیں ہے۔
”خدا نے تم ھی میں سے پیغمبر کو بھیجا تمھاری تکلیف سے انھیں تکلیف هوتی تھی وہ تم سے محبت کرتے تهے اور مومنین کے حق میں دل سوز و غفور و رحیم تهے۔“
وہ پیغمبر میرے باپ تهے نہ کہ تمھاری عورتوں کے باپ، میرے شوھر کے چچازاد بھائی تهے نہ کہ تمھارے مردوں کے بھائی، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منسوب هونا کتنی بھترین نسبت اور فضیلت ہے۔
انھوں نے دین اسلام کی تبلیغ کی اور لوگوں کو عذاب الٰھی سے ڈرایا، اور شرک پھیلانے والوں کا سد باب کیا ان کی گردنوں پر شمشیر عدالت رکھی اور حق دبانے والوں کا گلا دبا دیا تا کہ شرک سے پرھیز کریں اور توحید و عدالت کو قبول کریں۔
اپنی وعظ و نصیحت کے ذریعہ خداکی طرف دعوت دی، بتوں کو توڑا اور ان کے سروں کو کچل دیا،کفار نے شکست کھائی اور منھ پھیر کر بھاگے، کفر کی تاریکیاں دور هوگئیں اورحق مکمل طور سے واضح هوگیا، دین کے رھبر کی زبان گویا هوئی اور شیاطین کی زبانوں پر تالے پڑ گئے، نفاق کے پیرو کار ھلاکت و سر گردانی کے قعر عمیق میں جا گرے کفر و اختلاف اور نفاق کے مضبوط بندھن ٹکڑے ٹکڑے هوگئے۔
(اور تم اھل بیت (ع) کی وجہ سے) کلمہ شھادت زبان پر جاری کرکے لوگوں کی نظروں میں سرخ رو هوگئے ، در حالانکہ تم دوزخ کے دھانے پر اس حالت میں کھڑے تهے کہ جیسے پیاسے شخص کے لئے پانی کا ایک گھونٹ اور بھو کے شخص کے لئے روٹی کا ایک تر لقمہ، اور تمھارے لئے شعلہ جہنم اس راہ گیر کی طرح جستجو میں تھا جو اپنا راستہ تلاش کرنے کے لئے آگ کی راہنمائی چاھتا ہے۔
تم قبائل کے نحس پنجوں کی سخت گرفت میں تهے گندا پانی پیتے تهے اور حیوانوں کو کھال سمیت کھا لیتے تهے، اور دوسروں کے نزدیک ذلیل و خوار تهے اور اردگرد کے قبائل سے ھمیشہ ھراساں تهے۔
یھاں تک خدا نے میرے پدر بزرگوار محمدمصطفےٰ (ص) کے سبب ان تمام چھوٹی بڑی مشکلات کے باوجود جو انھیں در پیش تھی، تم کو نجات دی، حالانکہ میرے باپ کو عرب کے بھیڑئے نما افراد اور اھل کتاب کے سرکشوں سے واسطہ تھا ”لیکن جتنا وہ جنگ کی آگ کو بھڑ کا تے تهے خدا اسے خاموش کر دتیا تھا“ اور جب کو ئی شیاطین میں سے سر اٹھاتا یا مشرکوں میں سے کوئی بھی زبان کھولتا تھا تو حضرت محمد اپنے بھائی (علی) کوان سے مقابلہ کے لئے بھیج دیتے تهے، اور علی (ع) اپنی طاقت و توانائی سے ان کو نیست و نابود کردیتے تهے اور جب تک ان کی طرف سے روشن کی گئی آگ کو اپنی تلوار سے خاموش نہ کردیتے میدان جنگ سے واپس نہ هوتے تهے۔
وہ، علی (ع)، جو اللہ کی رضاکے لئے ان تمام سختیوں کا تحمل کرتے رہے اور خدا کی راہ میں جھاد کرتے رہے، رسول اللہ (ص) کے نزدیک ترین فرد اور اولیاء اللہ کے سردار تهے ھمیشہ جھاد کے لئے آمادہ اور نصیحت کرنے کے لئے جستجو میں رھتے تهے، لیکن تم اس حالت میں آرام کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزارتے تهے، (اور ھمارے لئے کسی بری) خبرکے منتظر رھتے تهے اور دشمن کے مقابلہ سے پرھیز کرتے تهے نیز جنگ کے وقت میدان سے فرار هوجایا کرتے تهے ۔
متعلقہ تحریریں:
ہمیں خود کو پیغمبر اعظم کے خاندان سے منسوب ہونے کے لائق بنانا چاہئے
محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی محبوب بیٹی کا یوم ولادت