ڈاكٹر نور احمد لطیفی
آقاي نور احمد لطيفي ولد محمد حسين ١٣٣٠ ميں شہر زابل كے ايك محلے حسين آباد ميں پيدا ہوئے۔ وہ ايك مذہبي اور شريف گهرانہ كے چوتهے بيٹے تهے۔ ماں باپ دونوں قرآن سے آشنا تهے ۔ ان كے نانا كا ايك مكتب بهي تها اور ان كي ماں بهي خواتين كو قرآن مجيد كي تعليم ديتي تهي۔ ان كے والد پہلے ايك معمار تهے ، پهر حلوائي كا كام كرنے لگے اور اسي طرح آہستہ آہستہ زابل كے ايك معروف تاجر بن گئے۔
ان کے گهر ہر ہفتہ شب جمعہ مجلس عزا منعقد ہوتي تهي۔ ايام عزا ميں بهي دو ہفتہ تك مفصل صف عزا بچهتي تهي۔ ان کے والد معروف خطبا من جملہ مرحوم كافي كو مجلس كے لئے دعوت ديتے تهے۔ قم سے تشريف لانے والے علما كي ذريعہ ہم حالات حاضرہ اور امام خميني كے افكار اور ان كي باتوں سے آشنا ہوتے تهے۔ آية اللہ بروجردي اور آية اللہ محسن حكيم كے انقتال كے ہم امام خميني كے مقلد بن گئے ليكن اس زمانے ميں ان كي توضيح المسائل پر پابندي تهي۔ جمعہ كے دنوں ميں دعائے ندبہ كا پراگرام بهي ان کے پر ہوتا تها اور اس كے بعد تفصيلي ناشتہ بهي ہوتا تها۔ ميري ابتدائي تعليم زاہدان كے پہلوي اسكول ميں ہوئي۔ ہائي اسكول كا پہلا سال شاہ رضا اسكول اور دوسرا سال فردوسي اسكول ميں پڑها۔ اس پوري تعليمي مدت كے درميان ہميشہ امتيازي حيثيت سے آگے بڑهتا رہا خاص كر حساب ميں۔ تن کي سياسي سرگرمياں ہائي اسكول كے دوسرے سال سے شروع ہوئيں۔
١٣٤٨ ميں جب بہائي مخالف تنظيميں بننا شروع ہوئيں تو ان کے گهر ميں بهي بہايت سے آشنائي اور اس كے مقابلے كے سلسلے ميں اجلاس ہوا كرتے تهے۔
ان کے كوشش ہوتي تهي كہ جوان بہايت كي طرف مائل نہ ہونے پائيں۔ ان دنوں ان کے دو دوست جو تہران يونيورسٹي ميں پڑهتے تهے ميرے گهر تفسير قرآن اور آيات جہاد كي توضيح و تشريح كي نشستوں ميں شركت كرتے تهے۔ ان کے گهر ميں ايك چهوٹي سي لائبريري بهي تهي جس ميں شہيد مطہري، ڈاكٹر شريعتي اور ابجينئر بازرگان كي بهي تهيں اور ان کے دوست بهي وہ كتابيں پڑها كرتے تهے۔ ١٣٤٩ ميں اہواز كي جندي يونيورسٹي ميں ميڈيكل ميں ميرا ايڈميشن ہو گيا۔ وہاں بهي ميں ايك ممتاز طالب علم تها اس لئے ميرے لئے حكومت كي طرف سے تعليم بهي مفت تهي۔ آہستہ آہستہ ميں عوام اور مذہبي و سياسي تنظيموں سے قريب ہوتا گيا اور نزديك سے لوگوں كي مفلسي اور بيچارگي كو محسوس كرنے لگا اور بر سر اقتدار حكومت كي ظلم و زيادتي كو اپني آنكهوں سے ديكهنے لگا۔
2500ساله جشن شہنشاہي ميں طلاب كي ساواك نے حكومت مخالف افراد كي نشاندہي كي جن ميں سے ايك ميں بهي تها۔ اسي لئے دوسرے سال ميرا داخلہ نہ ہوسكا ۔ يونيورسٹي كے وائس چانسلر نے مجهے بلايا اور مجهے ٤٨ گهنٹے تك كہ حوالات ميں ركها گيا۔ تهپڑوں ، لاتوں اور كوڑوں سے سزا دينے كے بعد مجه سے عہد ليا گيا كہ اب كسي طرح كي سياسي سر گرمي ميں شركت نہ كروں ۔ تين سال تك اسي يونيورسٹي ميں رہا اور اپني آنكهوں سي ديكهتا رہا كہ اتنا عظيم قومي سرمايہ (تيل) ہونے كے باوجود بهي لوگ فقر و فاقہ كي زندگي بسر كر رہے ہيں۔ اخلاقي فساد ، فساد كے اڈے، شراب كي دكانيں بہت زيادہ تهیں۔ وه خود تو ان لوگوں كے لئے كچه نہيں كر سكتا تها ليكن ان کے والد صاحب كي مالي حيثيت چونكہ اچهي تهي اس لئے ان كي مدد كيا كرتے تهے۔ اہواز سے فارغ ہونے كے بعد ميں تہران چلا آيا اور وہاں فيروزگر اسپتال ميں مشق كي غرض سے كام كرنے لگا۔ تہران ميں ہماري سياسي سياسي سرگرمياں خفيہ بهي تهيں اور علي الاعلان بهي۔ يہ زمانہ ان کی سياسي سرگرمي كا اوج كا زمانہ تها۔ ڈاكٹر شريعتي كي قہ تقارير جو نشر نہيں ہوئي تهيں انہيں لكهتا تها اور تقسيم كرتا تهي اسي طرح ہمارا ايك يہ كام يہ بهي تها اسرائيلي اقتصادي اور تجارتي مراكز كي نشاندہي كر كے ان كو نقصان پہنچايا جائے۔
١٧ فروردين١٣٥٣ كو تہران اسے گرفتار كر ليا گيا ليكن اپنے باہ كے تعلقات كي وجہ سے رہا كر ديا گيا اور پهر دوسري بار بہمن ١٣٥٣ ميں جب ساواك تہران يونيورسٹي كے ايك طالب علم كو گرفتار كر گئے تو اسے بهي گرفتار كر ليا۔ ان كا گروہ تمام ثبوتوں كے ساته فاش ہو چكا تها۔
چار مہينے ميں جتني بهي سز ا دي گئي ميں برداشت كرتا رہا ليكن اس كے بعد جب مجهے اس طالب علم سے روبرو كيا گيا تو ميں سب سب كچه اعتراف كرليا اور ايك كاغذ پر لكه دے ديا۔ ان کی گرفتاري كے ايام ميں دو امريكي جنگجووںكے ہاتهوں مارے گئے تهے چونكہ قاتلين نہيں مل سكے تهے لہٰذا ان كا الزام بهي ہمارے سر تهوپا گيا۔ اسي وجہ سے عدالت كي پہلي ہي سنوائي ميں ہم دونوں كے خلاف پهانسي كا حكم صادر كر ديا گيا ليكن ڈاكٹر کی پهانسي سے پہلے ہي اصل قاتلين كو پكڑ ليا گيا اور وہيں ان كو پهانسي بهي ہو گئي۔
عدالت كي دوسري سنوائي ميں تين آدميوں كے ساته مجهے بهي عمر قيد كي سزا سنائي گئي ،جيل ميں ہم يوں ہي بيكار نہيں بيٹهتے تهے بلكہ جس كو جو آتا تها وہ دوسروں كو اسكي تعليم ديتا تها۔١٣٥٦ ميں شہيد رجائي كے مجهے بهي محل كے قيد خانہ ميں منتقل كيا گيا۔تقريبا ٤٠٠ ،٥٠٠ افراد نے مل كر بهوك ہڑتال كي ليكن سازمان خلق اور كميونسٹوں نے اس ميں شركت نہيں كي۔
محمد رضا شاہ كي ٥٧ ويں سالگرہ كے موقع پر يعني ٢٦ دي كو لطيفي ايك گروہ كے ساته آزاد كر دئے گئے۔ رہائي كے بعد دڈاكٹر جيسے ہي زابل پہنچے ايك بهيڑ آئي ہوئي تهي جو درود و صلوات كے نعروں كے ساته ان كا استقبال كر رہي تهي۔ يہ بهيڑ سب سے پہلے مسجد حكيم ميں جاتي ہے جہاں آقائے طباطبائي تقرير كرتے ہيں۔ وہ مسجد امام حسين ميں جاتے ہيں جہاں ڈاكٹر لطيفي كي تقرير ہوتي ہے جس ميں وہ سياسي قيديوں كا پيغام لوگوں تك پہنچاتے ہيں۔ انقلاب كي كاميابي كے بعد وہ تہران آتے ہيں اور اپنے جيل كے ساتهيوں كے ساته مل كر ايك فوج بناتے ہيں اور فوك كي انتظامي كميٹي كے ممبر بن جاتے ہيں۔ ١٣٥٩ ميں ثقافتي انقلاب اور فوجي كمانڈروں كے مشورے سے اپني تعليم كو سلسلہ آگے بڑهاتے ہيں اور كچه عرصہ كے لئے بلڈ بينك ميں كام كرتے ہيں۔
پهر شہيد رجائي كي صدارت كے زمانے ميں وزير صحت كے معاون كے طور پر كام كارتے ہيں۔١٣٦٠ ميں ڈاكٹروں كي مجلس مشاورت كے سرپرست بنتے ہيں ۔يہ چونكہ ان كي پہلاسركاري منصب تهااسلئے ضد انقلاب افراد كے ذريعہ ملكي اورقومي منافع كو باہر جانے ميں ركاوٹ بنتے ہيں۔
١٣٥٨ ميں ان كي شادي ايك فيزيكس كي ٹيچر سے ہوتي ہے۔
ڈاكٹر، علمي نے اپني علمي ، تحقيقي سرگرميوں ، بڑي بڑي كانفرنسوں ميں شركت كے علاوہ ميڈيكل ميں بہت سے مقالات بهي لكهے ہيں جن ميں بہت سے ملكي اور بيرون ملك ميگزينوں ميں چهپ چكے ہيں۔مثلا
ميڈيكل كي بيادي بحثيں مستندات اور شواہد كے ساته۔
ميڈيكل اور تعليم و تربيت۔ اور وہ مقالات جو ايران ميڈيكل يونيورسٹي نے طبع كئے ہيں۔
بشکریہ : نويد شاہد
متعلقہ تحریریں:
ان حوادث سے انقلاب کمزور نہیں ہو سکتا
سانحہ ہفتم تیر (اٹھائیس جون 1981 ) تاریخ انقلاب میں ناقابل فراموش واقعہ
دشمنوں کا ادھورا خواب
لوگوں کے ایمان، سانحہ ہفتم تیر کے وقت بھی اسلامی جمہوریہ ایران کے مستحکم رہنے کا راز
شہدائے سانحہ ہفتم تیر (اٹھائيس جون 1981) اسلامی جمہوریہ ایران کی اساس اور اسلامی اقدار کی حاکمیت کی راہ کے شہید ہیں
خرمشہر کا یوم آزادی
امام خمینی (رح): خرم شہر کو خدا نے آزاد کیا
سانحہ ہفتم تیر
سانحہ ہفتم تیر (حصّہ دوّم )
سانحہ ہفتم تیر (حصّہ سوّم)