سانحہ ہفتم تیر (حصّہ دوّم )
ہفتم تیر (اٹھائيس جون 1981) کا سانحہ نظام کے اقتدار اور استحکام کی علامت
ہفتم تیر کا سانحہ اسلامی جمہوریہ ایران کے اقتدار اور استحکام کی علامت بھی ہے۔ کیونکہ جو لوگ شہید بہشتی کی شخصیت کو جانتے تھے اور اس بڑی شخصیت کی فکری توانائيوں، تخلیقی صلاحیتوں اور قوت ارادی سے آگاہ تھے وہ لوگ خوب سمجھ سکتے تھے کہ ملک کے چلانے والوں میں ایسی مقبول اور اہم شخصیت کے فقدان کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے۔ در حقیقت شہید بہشتی کی شخصیت اس مرکزی کردار کی طرح تھی جو تمام امور سے جڑی ہوئي تھی اور جس سے دوسروں کو حوصلہ ملتا تھا، آپ مسائل کی گتھیوں کے سلجھانے میں ماہر تھے۔ جب ایسی شخصیت کو جو انتظامی امور، عملی اقدامات، منصوبہ بندی، دینی امور اور فلسفیانہ نظریات، تجربات، روشن فکری اور وسعت نظر کے سلسلے میں بلند مقام اور مرتبے کی حامل تھی ایک نوخیز حکومت کے ڈھانچے سے الگ کر دیا جائے اور اسے ختم کر دیا جاۓ تو اس حکومت کا لڑکھڑا کر گر جانا فطری اور یقینی سمجھا جاتا ہے، لیکن حکومت، شہید بہشتی اور ان کے ساتھ یا ان سے پہلے اور ان کے بعد دوسری بڑی شخصیتوں کی شہادت سے نہ صرف یہ کہ متزلزل نہیں ہوئی اور ختم نہیں ہوئی بلکہ ان میں سے ہر شخصیت کی شہادت حکومت کے پودے کیلۓ تازہ پانی اور نظام کے نوخیز وجود کیلۓ لہو کی بوند ثابت ہوئی اور حکومت کو پہلے سے زیادہ شاداب اور تر و تازہ بنا گئی اور یہی استحکام اور توانائی آج تک حکومت میں موجود ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے عوام شہداء کی شہادت کے وقت دیگر افراد کی مانند ایک دوسرے کو تعزیت و تسلی نہیں دیتے بلکہ مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ جب بہشتی شہید ہوۓ لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے۔ یعنی غم کے ساتھ ساتھ سرخروئي کا احساس ہوتا تھا۔ یہی وہ چیز ہے جو ہماری حکومت اور انقلاب کی پہچان ہے۔
آج بھی ہفتم تیر کے واقعے کی یادہ تازہ ہے، شہید بہشتی بھی زندہ ہیں۔ شہید بہشتی یعنی اسلامی جمہوریہ ایران کی عدلیہ کے نۓ معمار اور بانی۔
سانحہ ہفتم تیر (اٹھائيس جون 1981) کے شہداء کے اہل خانہ اور عدلیہ کے عہدہ داروں کے ساتھ ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 27-6-2004.
https://urdu.khamenei.ir
متعلقہ تحریریں:
امام خمینی معاصر تاریخ کا مردِ مجاہد
مسلمانوں کی بیداری اور اتحاد میں انقلاب اسلامی کا کردار