• صارفین کی تعداد :
  • 6433
  • 1/27/2009
  • تاريخ :

مسلمانوں کی بیداری اور اتحاد میں انقلاب اسلامی کا کردار

انقلاب اسلامی ایران

عصر حاضر میں بڑی طاقتوں نے دنیا کو اپنے مفادات کے لحاظ سے بانٹ رکھا ہے لیکن اسلامی ممالک جو کبھی عظمت و شکوہ کے حامل تھے آج مختلف طرح کے مسائل سے دوچار ہیں، عصر حاضر میں بڑی طاقتوں نے دنیا کو اپنے مفادات کے لحاظ سے بانٹ رکھا ہے لیکن اسلامی ممالک جو کبھی عظمت و شکوہ کے حامل تھے آج مختلف طرح کے مسائل سے دوچار ہیں،بڑی طاقتیں اپنا اقتدار و اتحاد اور وجود قائم رکھنے کی غرض سے اپنے دشمنوں کو آپس میں لڑانے اور دیگر کئی طرح کی سازشوں میں مشغول ہیں، اسلام کے دشمن مسلمانوں کی صلاحیتوں اور طاقت کو ختم کرنے کے لۓ ہر طرح کے ہتھکنڈوں سے استفادہ کرتے ہیں ان میں سب سے خطرناک ہتھکنڈہ مسلمانوں میں اختلاف اور تفرقہ پھیلاے رکھنا ہے۔

اس صورتحال میں مسلمانوں کو چاہیۓ کہ وہ اسلام کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر متحد ہوجائیں اور دشمنوں کی سازشیں ناکام بنادیں یہ نظریہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد عملی شکل اختیار کرچکا ہے اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنی جو قدیمی تھذیب و تمدن کا حامل ہے ،متعدد حکومتوں کا تجربہ کیا ہے اس ملک میں مختلف سیاسی مکاتب فکر کی حکومتیں رہی ہیں ان میں آمرانہ حکومتوں سے لے کر دینی حکومتوں کا نام لیاجاسکتا ہے۔

اسلامی انقلاب کی کامیابی سے قبل ایران میں شاھی نظام حکومت قائم تھا شاھی نظام نے ایرانی معاشرے میں کافی استحکام حاصل کرلیا تھا۔

انقلاب ایران

ایران میں اسلام کی آمد کے بعد بعض بادشاہوں نے اپنے اقتدار کو محفوظ کرنے کے لۓ اسلام کا بھی سہارہ لیا اور ان آمر بادشاہوں نے اپنی حکومت کا جواز فراہم کر نے کی غرض سے خود کو ظل اللہ کہنا شروع کیا۔

مغرب میں صنعتی انقلاب کے بعد جو عالمی نظام وجود میں آیا اس کے اثرات مختلف ملکوں پر پڑے، ایران میں قاچاریہ حکومت کے زمانے سے مغرب سے رابطہ ہونا شروع ہوا اور پہلوی دور میں اپنے عروج کو پہنچا۔

آمرانہ بادشاہی حکومتوں اور سامراج کے مشترکہ مفادات کا تقاضہ تھا کہ عوام کے مقابل جو مسلمان تھے متحد ہوجائیں کیونکہ عوام کے اسلامی عقائد اور ان کا دین سامراج اور اسکی پٹھو حکومتوں کے مفادات کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ شمار ہوتا تھا لھذا سامراج نے اسلامی نوآبادیات میں دین کو کمزور بنابے کی حکمت عملی اپنائی۔

سامراج کی اس سازش کا مسلمانوں نے ھمیشہ مقابلہ کیا اور ان کے علماء و مفکرین نے عوام کو بیدار اور دینی اقدار کو زندہ رکھنے کی کوشش کی تاریخ میں اس تحریک کو "تحریک احیاے دین " کا نام دیا گیا ہے۔

 

عالمی سطح پر مذھبی تحریکوں کے منصہ ظہور میں آنے سے تحریک احیاۓ دین کو زبردست سہارہ ملا اور یہ تحریک روز بروز منظم ہوتی گئی اور اس کا اثر و رسوخ بڑھتا گیا ، انیسویں صدی کے آخر میں یورپ کے ترقی یافتہ ملکوں نے سرمایہ داری ،کمونیزم ، فاشیزم ،نیشنلیزم جیسے مکاتب فکر کا سہارہ لے کر مزید ترقی کرنے کی کوشش کی،مختلف ملکوں میں دینی نظریات کے علاوہ حکومت اور حکمرانوں کے سلسلے میں تمام مکاتب فکر کا تجربہ کرلیا گيا تھا گرچہ صنعتی انقلاب سے انیس سو ساٹھ کی دھائی تک دین بھی مختلف نشیب و فراز سے گذر چکا تھا لیکن حکومت کے سلسلے میں اس کا تجربہ نہیں کیا گیا تھا لھذا دوبارہ دینی پیش کۓ جانے سے اس میں عوام نے دلچسپی دکھانا شروع کی ان دینی تحریکوں میں لاطینی امریکہ میں عیسائیوں کی تحریک قابل ذکر ہے۔

اسلامی ملکوں نے بھی اجنبی مکاتب فکر کا تجربہ کیا لیکن انہیں اس میں سخت ناکامی ہوئي اسی آئيڈیالوجی کے خلاء کی بناپر عوام مایوسی کا شکار ہوگۓ تھے،لیکن اسلامی بیداری کے پھیلنے کے بعد مسلمانوں کو یقین ہوگیا کہ انسانی مکاتب فکر ان کے مسائل کا حل پیش نہیں کرسکتے اور صرف اسلام ہی انہیں حقیقی اتحاد اور بامعنی زندگی عطا کرسکتا ہے-

انقلاب ایران

اس بارے میں قرآن میں ارشاد خداوندی ہے "لوانفقت ما فی الارض جمیعا ما الفت بین قلوبھم و لکن اللہ الف بینھم "اگر تم انسانوں میں محبت اور الفت پیدا کرنے کے لۓ زمین میں جو کچھ ہے وہ خیرات کردو تب بھی ان میں الفت پیدا نہیں کرسکتے بلکہ خدا انسانوں میں الفت اور محبت ڈالتا ہے ۔

اسلام میں قحط اور بھوک کے مسئلے کا حل پیش کیا ہے جسے آج سماجی انصاف سے تعبیر کیا جاتا ہے اسی طرح سے اسلام نے خوف و وحشت کا بھی حل پیش کیا ہے اسکو آج کل سیاسی انصاف یا جمہوریت کہا جارہا ہے اسلام نے انسان کو درپیش تمام مسائل کا حل پیش کر کے اسے تمام انسانی مکاتب فکر سے جن کی ناکامی ثابت ہو چکی ہے بے نیاز کردیا ہے۔

اجتماعی انصاف اور سیاسی انصاف کا مسئلہ ھمیشہ سے مسلمانوں کے پیش نظر رہا ہے اور مسلمان ھمیشہ سے اجتماعی اور سیاسی مسائل کو حل کرنے کی کوشش میں رہے ہیں لیکن تمام مکاتب فکر اور آئیڈیالوجیاں ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہیں اسی بناپر معاصر اسلامی بیداری کا مقصد سنت رسول اکرم صلی اللہ وعلیہ و آلہ وسلم کی سنت کے مطابق اسلام کی بنیادوں اور اصولوں کی طرف لوٹنا اور اسلامی شناخت حاصل کرنا ہے یہی سماجی انصاف اور سیاسی اتحاد تک پہنچنے کا واحد راستہ ہے۔

بنابرین انسانی آئیڈیالوجیوں کی ناکامی اور اسلام کے خلاف سامراج اور اس کے آلہ کاروں کی سازشیں اسلامی تحریکوں کی تجدید حیات کا باعث بنی ہیں مسلمانوں کی تنظیمیں اور تحریکيں جنہیں سیاسی اسلام اور اسلامی بیداری کا حامل کہا جاتا ہے وہ نہ صرف مختلف مکاتب فکر کی ناکامی اور حکومتوں اور تدبیر سیاست کے سلسلے میں ان میں شدید اختلاف کی بناپر اسلام کی طرف لوٹ کر آرہی ہیں بلکہ انہوں نے اسلام مخالف اپنی حکومتوں کو چیلنج کرنا شروع کردیا ہے بلکہ ان کے خاتمے کے بھی خواہاں ہیں یہی نہیں ان کے بیرونی حامیوں جیسے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف بھی جدوجھد شروع کردی ہے۔

 

اسلام مخالف کاروائیوں کا مقابلہ کرنا اور اپنی عوام کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرنا تمام اسلامی معاشروں کا مشترکہ مسئلہ ہے ایسے ہی حالات میں اسلامی انقلاب حضرت امام خمینی کی قیادت میں کامیاب ہوا اور سارے عالم اسلام پر گہرے اثرات مرتب کۓ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے اسلامی تنظیموں کو حیات تازہ ملی اور انہیں مھمیز کرنے میں اسلامی انقلاب کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا،انیس سو اناسی میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے مسلمانوں میں عظیم جوش و ولولہ پیدا ہوا جس نے ساری دنیا پر گہرے اثرات مرتب کۓ جس کے نتیجے میں بہت سی مکومتوں کی بنیادیں متزلزل ہوگئیں۔

ایران میں پہلوی حکومت کی سرنگونی اور اسلامی جمہوریہ کی تاسیس دنیاے اسلام میں بہت سی تبدیلیاں آئیں جن کی بناپر مختلف حکومتوں نے اپنے طرز حکومت پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہوئیں۔

اسلامی گروہوں کے قائدین نے اسلامی تعلیمات کے سہارے جنہیں امام خمینی نے عملی طور پر نافذ کیا تھا مغرب کے اثرو رسوخ کو ختم کرنے کی جدوجھد شروع کردی اور اپنے ملکوں کے انتظامی امور میں اسلامی قوانین کے نفاذ اور حکمرانوں کے ظلم و ستم ان کی بے لیاقتی اور بدعنوانیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔

انقلاب ایران

الف: اسلامی علماءومفکرین کی مشترک مساعی

علماءو مفکرین عوام کو بیدار اور انہیں حلال و حرام سے آگاہ کرنے کے سلسلے میں بنیادی کردار کے حامل ہیں کیونکہ علماءو مفکرین کے فیصلوں اور مواقف کا عوام پر خاطر خواہ اثر ہوتاہے علماء کے روحانی مقام کی بناپر مسلمانوں کے درمیان ان کا خاص احترام ہے یہ حضرات مسلمانوں کے گروہوں اور مذاھب کے درمیان مفاھمت نزدیکی اور تعاون پیدا کرنے میں اھم کردار کے حامل ہیں لھذا امت کو متحد کرنے کی ذمہ داری علماء پر عائد ہوتی ہے اور ان ہی کی کوششوں اور مساعی سے ماضی کی کے ہاتھوں پیکر اسلام پر لگاۓ گۓ داغ دھوۓ جاسکتے ہیں اور ہر مذھب کے حقائق جیسے کے وہ ہیں مسلمانوں کو بتاۓ جاسکتے ہیں اس طرح مختلف مسائل کے سلسلے میں جو بےجاتعصبات جڑ پکڑ چکے ہیں ان کا ازالہ کیا جاسکتا ہے یہ ھدف اتحاد و تقریب کو فروغ دینے والی کتب شائع کرکے انہیں نظام تعلیم میں شامل کرکے اور اتحاد کی غرض سے تقریریں اور اور خطبے دے کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔

علماء و مراجع اور فقہاء پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ دینی طلباء مبلغین کو اختلافی موضوعات کے نقصانات سے آگاہ کریں کیونکہ غلط افکار و عقائد کا پرچار کرنے سے جو صحیح اور مستحکم دلیلوں پر استوار نہیں ہیں نہ صرف عوام کی بدبینی اور گمراہی کی اسباب فراہم ہوتے ہیں بلکہ امت کو متحد کرنے کی تمام کوششیں بے اثر ہو جاتی ہیں۔

امت اسلامی کو متحد کرنے کی حکمت عملی کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ ایسی کانفرنسوں اور اجتماعات میں جہاں مختلف مذاھب کے پیرو شریک ہوں وہاں مشترکہ اصولوں پر گفتگو کی جاۓ  اور اختلافی مسائل سے پرھیز کیا جاۓ۔

مشترکہ اصولوں پر تاکید کرنے سے جو تمام مسلمانوں کی پہچان ہیں مسلمان خود کو ایک دوسرے سے قریب تر محسوس کرینگے اور اتحاد کو فروغ ملے گا ۔

انقلاب ایران

اتحاد کی کوشش کرنے والوں کے لۓ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کے فقہی نظریات کا خاص خیال رکھیں کیونکہ ہر فرقہ کی فقہ اس کے علماء کی صدیوں کی عرق ریزی اور محنت کا نتیجہ ہے لھذا ایک دوسرے کے عقائد اور دینی احکام کے سلسلے میں رواداری کا اظہار اور باہمی احترام نہ صرف اخوت اور ہم فکری کو بڑھاوا دیتا ہے بلکہ اس سے بے فائدہ بحث کا خطرہ بھی ٹل جاتا ہے جو اتحاد کی کوششوں کو ناکام بنا سکتا ہے

رواداری کے ساتھ ساتھ دشمنوں کی سازشوں سے بھی ہوشیار رہنا ضروری ہے کیونکہ دشمن امت کے مختلف گروہوں میں بدبینی اور سوءظن پیدا کرکے تفرقہ ڈالنے کے درپۓ رہتا ہے آئیے اس بارے میں عالم اسلام کے دو عظیم مفکروں کے خیالات سے آگاہی حاصل کرتے ہیں۔

مفسر کبیر علامہ سید محمد حسین طباطبائی فرماتے ہیں کہ:

"ہمیشہ اس حقیقت کا ذکر کرتے رہنا چاھیے کہ شیعہ اور سنی کا اختلاف صرف فروع میں ہے اصول دین میں وہ کوئی اختلاف نہیں رکھتے یہانتک کہ فروع ضروریہ جیسے نماز روزہ حج جہاد وغیرہ میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے اور سارے مسلمانوں کا قرآن و کعبہ ایک ہے خوشی کی بات ہے کہ عالم اسلام میں تدریجا اس حقیقت کو درک کیا جا رہا ہے اور شیعہ علماء نے اسی وجہ سے تقریب مذاھب اسلامی کا نظریہ پیش کیا تھا اورشیخ الازھر نے بھی اسے واضح الفاظ میں بیان فرمایا ہے انہوں نے اس طرح دنیا کو شیعہ اور سنی کے مکمل دینی اتفاق سے آگاہ کردیا ہے ۔

شھید آیۃاللہ مطھری

مسلمانوں کی تمام مصیبتوں کی جڑ اور ان کی عظمت و شوکت کے خاتمے کا سبب یہی اختلاف اور تفرقہ ہے بے شک مسلمانوں کو سب سے بڑھ کر اتحاد و یکجھتی کی ضرورت ہے اس وقت عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ مسلمانوں کے دیرینہ اختلافات ہیں جن سے دشمن نے ھمیشہ فائدہ اٹھایا ہے۔

 

  تحریر : سید مھدی بزرگی ( تقریب ڈاٹ آئی آر )