خرمشہر کا یوم آزادی
چوبیس مئی انیس سوبیاسی کو جب صدام کی بعثی فوج کے ڈیڑھ سالہ قبضے کے بعد ایران اسلامی کے سرفروشوں اور جانبازان اسلام نے خرمشہر کو واپس اپنی آغوش میں لیا تو اس وقت دنیا کے بڑے بڑے سیاسی اور دفاعی نظریہ پردازوں کے ہاتھوں سے طوطے اڑگئے اور عالمی سطح پر دفاعی اور جنگی اسٹریٹیجی و حکمت عملی پر از سر نوجائزہ لیا جانے لگا ۔ ایران پر جارحیت کے کچھ ہی دنوں بعد صدام کی بعثی فوج نے جسے دنیا کی تمام بڑی طاقتوں کی حمایت حاصل تھی خرمشہر پر قبضہ کرلیا اور اس کے ہمسایہ شہر آبادان کو اپنے محاصرے میں لے لیا ۔ خرمشہر جس پر صدام کی بعثی فوج کا ڈیڑھ سال تک قبضہ تھا اس وقت سیاسی اور فوجی میدانوں میں ایران اور عراق دونوں کی فتح و شکست کے معیار میں تبدیل ہوچکا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ طاقت کے نشے میں چور امریکہ اور بڑی طاقتوں کا غلام صدام انتہائی متکبرانہ لہجے میں کہتا تھا کہ اگر ایرانیوں نے خرمشہر واپس لے لیا تو ہم بصرہ شہر کی کنجی خود بخود ایرانیوں کو پیش کردیں گے ۔ یعنی صدام اور اس کے حامیوں کو اس بات کا پختہ یقین تھا کہ جتنی جنگی طاقت اور مشینری ان کے پاس ہے اس کے پیش نظر ایرانی جانباز کبھی بھی خرمشہر واپس نہيں لے سکتے اور اسی بنا پر وہ خرمشہر کو ایران کے دروازے کے طور پر استعمال کرکے ایران کے ديگر شہروں پر بھی قبضے اور نتیجے میں اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کے خاتمہ اور نابودی کا بھی خواب دیکھ رہے تھے ۔ درحقیقت ظالم و جارح صدام نے دشمنان اسلام اور اپنے سامراجی آقاؤں کے ہی حکم پر ایران پرجارحیت کی تھی اور بہانہ یہ بنایا کہ وہ الجزائر معاہدے کو تسلیم نہیں کرتا ۔ ایران کے اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کو نابود کرنے کے لئے اس وقت کی تمام مشرقی اور مغربی طاقتیں ایک ہوگئی تھیں۔ جہاں مغرب اورمشرق کی طاقتیں صدام کی فوجی اور اسلحہ جاتی مدد کر رہی تھیں وہیں علاقے کی رجعت پسند عرب حکومتیں بھی صدام کی جسے اس وقت سردار قادسیہ کا لقب دینے پر وہ افتخار کر رہی تھیں بے پناہ مالی مددکر رہی تھیں ۔ ظاہر ہے ایسے میں کون یہ تصور کرسکتا تھا کہ ایران کے جوان جنھوں نے اپنی سالہا سال کی جدوجہد کے بعد اسلامی انقلاب کو کامیاب بنایا ہے اور نئے اسلامی نظام حکومت کی داغ بیل ابھی جلد ہی ڈالی ہے اوران کے پاس ایک تجربہ کار و آزمودہ فوج بھی نہيں ہے کیسے خرمشہرکو واپس لے سکيں گے؟ خرمشہر کو واپس لینا تو دورکی بات ان باطل قوتوں کو اس بات کا پورا یقین تھا کہ وہ ایرانی سپاہی ديگر شہروں کا بھی دفاع نہیں کرسکیں گے ۔ مگر ان باطل قوتوں نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی قوت وطاقت کا محاسبہ کرنے اور اندازہ لگانے میں غلطی کا ارتکاب کیا وہ شاید یہ بھول گئے تھے ایمان اور حقیقی اسلام کے جذبے سے سرشار جوانوں کی طاقت کھبی بھی کثرت فوج یا اسلحوں و فوجی ہتھیاروں کے تکثر سے مرعوب نہيں ہوتی ۔ پینتیس دنوں تک ایران کے جوانوں اور عام شہریوں نے صدام کی بعثی حکومت کا جو جدیدترین اسلحوں سے لیس تھی مقابلہ کیا اورخرمشہر کا دفاع کیا مگر مزید جانی نقصانات سے بچنے کے اصول کے پیش نظر انھوں نے بہرحال ٹیکٹیکی طور پرخرمشہر سے پسپائی اختیار کرلی اور یوں یہ شہر جواستقامت و پائمردی کی علامت بن چکا تھا بالاخر صدامیوں کے قبضے میں چلاگیا ۔
مگراس کے بعد ایران کے جوانوں اور عشق اسلام سے سرشار جیالوں نے ڈیڑھ برس تک انتہائي استقامت و پائمردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے عظیم الشان رہبر کی مدبرانہ اورعالمانہ قیادت نیز اپنے کمانڈروں کی شاندار حکمت و تدبیرکی بدولت عصر حاضرکا وہ بے مثال دفاعی اور رزمیہ کارنامہ رقم کیا کہ صدام تو صدام اس کے سبھی آقاؤں کے ہوش اڑگئے اورمشرق و مغرب کی طاقتوں کے ذریعہ بچھائی گئی جنگی بساط سمیٹ دی گئی ۔ دوست تو دوست دشمن بھی یہ کہنے اور اعتراف کرنے پرمجبور ہوگئے کہ خرمشہر کو جس طرح سے ایرانی جوانوں نے آزادکرایا ہے اس نے تمام جنگی حکمت عملیوں اور اندازوں پرخط بطلان کھینچ دیا ہے ۔خرمشہر کی آزادی کا اعلان اس قدرحیرت انگیز امر تھا کہ نہ صرف پورا ایران بلکہ دنیا کے گوشہ و کنار میں بسنے والے انقلاب دوست وجد میں آگئے ۔ پور ایران سراپا جشن و سروربن گیا تھا اور ہر شخص ایک دوسرے سے گلے مل کر اشک شوق بہا رہا تھا گویا اس کا یوسف گم گشتتہ واپس آگیا ہو۔ جانبازان اسلام کی اس شاندار کامیابی کی عظمت کا اندازہ لگانے کے لئے یہی جاننا کافی ہے کہ جارح عراقی فوج خرمشہرکی آزادی کے لئے لڑی جانے والی جنگ سے پہلے اپنے فوجیوں کو یہ باورکرانے کی کوشش کر رہی تھی کہ خرمشہر کا دفاع بصرہ اور بغداد سمیت تمام عراقی شہروں کے دفاع کے مترادف ہے اسی لئے جیسے بھی ہو خرمشہر کا دفاع کیا جائے اور ایرانیوں کو واپس نہ جانے دیا جائے ۔ اسی طرح بعثی فوج کے بے پناہ فوجی ساز و سامان جو اس علاقے میں تھے ان سے یہ ثابت ہو رہا تھا کہ عراق خرمشہر پر اپنے قبضے کو جنگ میں اپنی کامیابی کی علامت کے طور پر پیش کرتا ہے اور اس نے پورا عزم کر رکھا تھا کہ جیسے بھی ہو خرمشہر پر اپنا قبضہ برقرار رکھے ۔ جس وقت بیت المقدس اول اور بیت المقدس دوم نامی جنگی کاروائیاں ایرانی جوانوں نے مکمل کرلیں اور جانبازان اسلام خرمشہر کے اطراف میں تعینات ہوگئے تو اس وقت بعثی حکومت کے ریڈیو اپنے جھوٹے پروپیگنڈوں کے ذریعہ عوام پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ خرمشہر میں عراقی فوج پوری قوت کے ساتھ موجود ہے اوراس طرح وہ اپنی شکست خوردہ فوج کا جوہمت ہار چکی تھی حوصلہ بڑھانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے ۔ خرمشہر میں موجود عراقی فوجیوں کا محاصرہ کرلینے کے بعد جانبازان اسلام نے چوبیس گھنٹوں سے بھی کم عرصے میں اس شہرکو بعثی فوج کے ناپاک وجود سے آزاد کرالیا اور پینتیس ہزار سے زائد عراقی فوجیوں کو گرفتار کرلیا ۔ بیت المقدس کے نام سے خرمشہر کی آزادی کے لئے ایران کے مومن جیالوں کی فداکاری اور جنگی کاروائی جو دنیا بھرکی جنگی کاروائیوں میں اپنا منفردمقام رکھتی ہے آج بھی بڑی طاقتوں کے دل و دماغ بھی حاوی ہے اور ایرانی جوانوں کی اسی فداکاری اور ابہت کو ہی دیکھ کر آج دشمن، ایران کو آنکھ دکھا نے کی جرات نہيں کر پا رہا ہے ۔ خرمشہر کی آزادی کے لئے لڑی جانے والی جنگ نے انیس مہینوں تک اس شہر پربعثی فوج کے قبضے کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ ایران کے سرحدی صوبے خوزستان کے اور بھی علاقوں اور شہروں کو آزاد کرانے کا راستہ ہموار کیا اور دشمن پراس نے ایسی کاری ضرب لگائی کہ اس کے بعد پھر وہ سنبھل نہ سکا ۔خرمشہر پر غاصبانہ قبضہ برقرار رکھ پانے میں دشمن کی شکست اتنی سنگین تھی کہ صدام کے وہ حامی جواب تک صدام کی پیٹھ ٹھونک رہے تھے اب اس فکرمیں لگ گئے کہ خرمشہر تو واپس ایرانیوں کے پاس چلاگیا اب ضرورت اس بات کی ہے کہ جیسے بھی ہو صدام کے وجود کو بچایا اوراس کی حکومت کی حفاظت کی جائے ۔
چنانچہ خرمشہر سے ذلت آمیزطریقے سے نکلنے کے بعد دشمنان اسلام نے اپنی ساری توانائی اس بات پرصرف کردی کہ جیسے بھی ہوصدام کوبچالیا جائے اوراس کام کے لئے انھوں نے آٹھ سال تک اس کی بے پناہ اسلحہ جاتی اورمالی مدد کی اورایران پردباؤڈالتے رہے کہ جیسے بھی ہوجنگ ختم ہوجائے ۔بادی النظرمیں خرمشہر کی آزادی ایک علاقے کی آزادی ہے جوایک جنگی کاروائی کے ذریعہ حاصل ہوئی تھی مگرجب اس پوری صورت حال پرغورکیا جاتا ہے تو یہ بات صاف ہوجاتی ہے یہ لڑائی یا فتح صرف علاقے کے لۓ نہيں یا علاقے کو فتح کرنے کے لئے نہیں تھی بلکہ سوال اسلامی اور انسانی اقدار تھا ۔ ایران پر حملہ اورخرمشہر پر قبضہ کرلینے کے بعد دشمنوں کا منصوبہ یہی تھا کہ وہ اسلام کے نام پرآنے والے انقلاب اور تشکیل پانے والے اسلامی نظام کو نابو د کردیں تاکہ اسلامی تعلیمات اور اقدار کو ديگرعلاقوں میں پھیلنے سے پہلے نابودکردیا جائے ۔اسی لئے توفتح خرمشہرکے بعد رہبرکبیرانقلاب اسلامی امام خمینی رہ نے فرمایا تھا کہ خرمشہر کواللہ نے آزاد کرایا ہے اورخرمشہر کی فتح اسلامی اورانسانی اقدارکی فتح ہے ۔چنانچہ اگرآج ستائیس سال کا عرصہ گذرجانے کے بعد بھی خرمشہرکی آزادی کا جشن قومی اوربین الاقوامی سطح پرپورے جوش وولولے کے ساتھ منایا جاتا ہے تواس کی وجہ یہی ہے کہ یہ شہر یا علاقہ جیتنے کی جنگ اورفتح نہیں تھی بلکہ اقدارکے تحفظ اوراس کوفتح سے ہمکناکرنے کا معرکہ تھا جسے جانبازان اسلام نے سرکیا ۔ اسی لئے فتح خرمشہرکوعصرحاضرکی فتح الفتوح کا عنوان دینا کوئی انتہائي مناسب اوربجااقدام ہے ۔
اردو ریڈیو تہران