شہيدہ مريم فرہانيان كي زندگي پر اجمالي نظر
شہيدہ مريم فرہانيان 14جنوري 1964كو آبادان كے ايك متوسط مذہبي گهرانہ ميں پيدا ہوئيں۔ زندگي كے ابتدائي ايام چين و سكون كے ساته گهر كے پر سكون ماحول ميں گزارے اور صرف يہي دور ہے جو اس شہيدہ كي زندگي كا پرسكون دور تها۔ اسكول ميں داخلہ ليا پرائمري اور مڈل كلاسز مكمل كرنے كے بعد ہائي اسكول ميں داخل ہو گئي ۔ نوجواني ہي سے آپ كو مطالعہ اور درس و بحث كا شوق تها اور آپ مختلف رسائل پڑهتيں، مجالس ميں علما كي تقارير سنتيں اس لئے آپ بہت جلد عالمي امپرالزم ،اسكتبار اور صہيونيت سے با خبر ہوگئيں جس كي وجہ سے آپ ميں ذمہ داري كا ايك احساس جاگا جس نے آپ كو مجاہدوں كي صف ميں لا كهڑا كيا اور آپ ظلم و ظالم كے خلاف عوامي احتجاجات ميں شركت كرنے لگيں۔اسلامي انقلاب كي كاميابي كے بعد آپ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامي كے شعبہ خواتين كي ممبر بنيں اور وہاں كاميابي كے ساته ٹريننگ حاصل كي اور اس طرح آپ سپاہ پاسداران كي ايك كامياب ممبر بن گئيں۔
عراق كي طرف سے ايران پر تهوپي جانے والي آٹه سالہ جنگ كے ابتدائي ايام ہي ميں يعني 22 دن گزرنے كے بعد آپ نے اپنے اس عزيز اور مہربان بهائي كو كهو ديا جو زندگي كے ہر قدم اور ہر موڑ پر آپ كي راہنمائي كيا كرتا تها۔
بهائي كي موت نے آپ كو كمزور نہيں بنايا بلكہ آپ نے حضرت زينب سلام اللہ كي طرح اپنے بهائي كے مشن كو آگے بڑهانے كي ٹهاني اور ميدان جہاد ميں نكل پڑيں۔وہ جنگي زخميوں كي مدد اور ان كے علاج كے لئے ايك اسپتال ميں كام كرنے لگيں ۔ آپ كے گهر والوں نے يہ كام چهوڑ دينے اور واپس گهر آنے پر مجبور كيا جس كي وجہ سے آپ كو اسپتال چهوڑنا پڑا ليكن آپ كي بيتاب روح سے رہا نہ گيا اور آپ گهر والوں كي مخالفت كے باوجود تيل كمپني كے اسپتال ميں دو باہ بيماروں كي تيمارداري اور جنگي زخميوں كي پرستاري ميں مشغول ہوگئيں۔
اس مدت ميں آپ خود بهي ايك بار زخمي اور اسپتال ميں داخل ہوئيں۔آبادان كي آزادي ،شہر كے محاصرہ كو توڑنے ، خرمشہر كي آزادي اور دوسرے بہت سے آپريشنز ميں آپ كي بہت خدمات ہيں۔ وہ اسي طرح اسپتال ميں ايك نرس بن كر خدمت كرتي رہيں يہاں تك جب خرمشہر آزاد ہو گيا اور زخميوں كے علاج كے لئے زيادہ كام نہ رہا تو آپ شہيد فائونڈيشن ميں دوسري دو خواتين كے ساته اس كے ثقافتي امور كےشعبہ ميں شہدا كے افراد خانہ كي خدمت ميں مشغول ہوگئيں۔وہ اكثر روزہ كي حالت ميں خوزستان كي اس ناقابل برداشت گرمي ميں اپنے ساتهيوں سميت اہواز اور جراحي نامي علاقوں ميں شہداء كے افراد خانہ كي احوالپرسي اور خدمت كے لئے جاتيں اور اپني بے چين روح كو چين و قرار بخشتيں۔
4اگست 1984 كا سورج غروب كر رہا تها جب يہ شہيدہ اپني دو ساتهي بہنوں كے ساته اپنے بهائي كے مزار پر جارہي تهيں كہ راستے ميں صدام كي ظالم فوج كي طرف سے پهينكے جانے والے ايك گرينيڈ كا شكار ہو گئيں ۔ وہ دو بہنيں زخمي ہو گئيں ليكن مريم نے جام شہادت نوش فرما كر بهائي سے كيا ہوا وعدہ پورا كيا۔
بشکریہ : نويد شاہد
متعلقہ تحریریں:
ان حوادث سے انقلاب کمزور نہیں ہو سکتا
سانحہ ہفتم تیر (اٹھائیس جون 1981 ) تاریخ انقلاب میں ناقابل فراموش واقعہ
دشمنوں کا ادھورا خواب
لوگوں کے ایمان، سانحہ ہفتم تیر کے وقت بھی اسلامی جمہوریہ ایران کے مستحکم رہنے کا راز
شہدائے سانحہ ہفتم تیر (اٹھائيس جون 1981) اسلامی جمہوریہ ایران کی اساس اور اسلامی اقدار کی حاکمیت کی راہ کے شہید ہیں
خرمشہر کا یوم آزادی
امام خمینی (رح): خرم شہر کو خدا نے آزاد کیا
سانحہ ہفتم تیر
سانحہ ہفتم تیر (حصّہ دوّم )
سانحہ ہفتم تیر (حصّہ سوّم)