یوم ولادت حضرت علی علیہ السلام پر قائد انقلاب اسلامی کا ایک خطاب
(حصّہ دوّم )
دنیا ان لذتوں کے معنی میں جو ایک انسان اپنی زندگی کے لئے چاہتا ہے امیرالمومنین علیہ السلام کے نزدیک مکمل طور پر متروک ہے۔ آپ کا دنیا سے خطاب ہے "غری غیری" اے لذت، اے مادی زندگی کی خوبصورتی جا کر کسی اور کو فریب دے، علی کو فریب نہیں دے سکتی، یہ امیر المومنین علیہ السلام کا نعرہ ہے۔
آج اسلامی نظام میں، اس نظام میں جو اسلام کے نام پر ہمارے ملک میں تشکیل پایا ہے، کون سی چیز سب سے زیادہ اہم اور حیاتی درجہ کی حامل ہے اور کس چیز کی بابت خاص حساسیت اور توجہ کی ضرورت ہے؟ مساوات، یعنی اگر ہمارے اس زمانے میں، اس معاشرے میں اور ان عوام کے درمیان جو حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے خاص عقیدت و مودت رکھتے ہیں، آپ موجود ہوتے تو کس چیز پر آپ کی خاص تاکید ہوتی؟ یقینا عدل و انصاف اور مساوات پر۔
مساوات، کسی خاص گروہ، عوام یا کسی ایک ملک اور قوم کا مطالبہ اور خواہش نہیں ہے۔ یہ تو پوری تاریخ انسانیت میں تمام انسانوں کی دلی آرزو رہی ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کی جستجو آج بھی انسانیت کو ہے اور انبیاء الہی یا امیرالمومنین علیہ السلام جیسے اولیاء کے ادوار حکومت کے علاوہ، جو کبھی کبھی دیکھنے میں آئے، عدل و انصاف پر حقیقی معنی میں عمل نہیں ہو سکا۔
دنیا پرست افراد اور وہ لوگ جن کے دل مادی اور دنیوی چیزوں کی ہوس سے لبریز ہیں، کبھی بھی عدل اور مساوات قائم نہیں کر سکتے۔ عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے ایک بے نیاز دل، قوی ارادے اور ثابت قدمی کی ضرورت ہے۔
ہماری بھرپور کوشش یہ ہونی چاہئے کہ اس راہ میں امیر المومنین علیہ السلام کے نقش قدم پر چلیں، ہمیں اعتراف ہے کہ ہم مولائے کائنات کی مانند عدل و انصاف قائم نہیں کر سکتے۔ یہ ہم مانتے ہیں کیونکہ کہاں ہم اور کہاں وہ فولادی اور آہنیں ارادے کے مالک علی علیہ السلام، غول پیکر لہروں کے سامنے ہم کہاں ٹک سکتے ہیں؟! لیکن پھر بھی ہمیں اپنی بساط بھر تو کوشش کرنی چاہئے۔
امیر المومنین علیہ السلام اپنے گماشتہ افراد کو عدل و انصاف قائم کرنے کا حکم دیتے تھے، حالانکہ وہ امیر المومنین علیہ السلام کے درجے پر فائز نہیں تھے۔ معلوم ہوا کہ عدل و انصاف کے قیام کی ذمہ داری ہمارے دوش پربھی ہے اس کے لئے ہمیں کوشش کرنی ہوگی۔ عوام کو بھی اس چیز کا مطالبہ کرنا چاہئے یہ چیز عوامی سطح پر رائج ہو جانی چاہئے، ہمارے عوام کا سب سے بڑا مطالبہ، عدل و انصاف ہونا چاہئے، داخلی امور میں بھی اور عالمی مسائل کے تعلق سے بھی۔
آج دنیا میں جو یہ بے انصافی اور عدم مساوات ہے اور بڑی طاقتوں کی جانب سے عالم انسانیت اور اقوام پر جو ظلم ڈھائے جا رہے ہیں، اس بڑی لعنت سے مقابلہ اس مسلمان کی نظر میں اہم ترین فریضہ ہونا چاہئے جو اسلام کی حاکمیت کے لئے اسلامی جمہوریہ کے زیر سایہ زندگی بسر کر رہا ہے۔ یہ ہماری زندگی کا اہم ترین نعرہ ہونا چاہئے اندرونی اور بیرونی تمام مسائل میں۔
اگر ہم عدل و انصاف قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہمارا سب سے پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ ہم نصرت الہی پر یقین رکھیں اور اللہ تعالی سے اپنے قلبی رابطے کو مستحکم کریں۔ یہیں پر دعا و عبادت و خضوع و خشوع اور مناجات و توسل کی اہمیت پتہ چلتی ہے۔ ماہ رجب، عبادت و مناجات تضرع و توسل الی اللہ کی بہار ہے۔ عبادت کے ان ایام، اس ماہ رجب، ماہ شعبان اورسب سے بڑھ کر ماہ مبارک رمضان کی اہمیت کا ادراک ضروری ہے۔
اگر ہم زندگی کے میدان میں اس صراط مستقیم کے راہرو بننا چاہتے ہیں جسے اسلام نے متعارف کروایا ہے تو اللہ سبحانہ و تعالی سے ہمارا رابطہ مضبوط و مستحکم ہونا چاہئے۔ یہ رابطہ دعا و نماز کے ذریعے اور گناہوں سے دوری کے ذریعے مضبوط ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام جیسا انسان، شجاعت کا وہ پیکر، کہ میدان کارزار میں جس کی شجاعت کے ڈنکے سارے دنیا میں بج رہے ہیں، کسی کو بھی اس میں کوئی شک نہیں ہے، جب محراب عبادت میں پہنچتا ہے تو " یتململ تململ السلیم" ایسے شخص کی مانند تڑپتے ہیں، گریہ کرتے، پیشانی زمین پر رگڑتے ہیں جسے سانپ نے ڈس لیا ہو۔ دعای کمیل اور یہ مناجات شعبانیہ جو امیر المومنین علیہ السلام سے منسوب ہیں ان پر آپ غور کیجئے، پروردگار کی بارگاہ میں اس عظیم انسان کے گریہ و زاری اور تضرع و توسل کا کیا انداز ہے؟! یہ ہمارے لئے سبق ہے۔
https://urdu.khamenei.ir
متعلقہ تحریریں: علی علیہ السلام؛ نومسلم ولندیزي خاتون کی نگاہ میں
فضائل علی علیہ السَّلام صحیحین کی روشنی میں
حضرت علی علیہ السلام کا جمع کردہ قرآن
مولا علی علیہ السلام