فضائل علی علیہ السَّلام صحیحین کی روشنی میں
ابھی تک ھم نے اھل بیت علیھم السلام اور بارہ اماموں کے فضائل کے بارے میں بطور عموم صحیحین سے روایات آپ کی خدمت میں نقل کیں ھیں اب ھم فرداًً اھل بیت کے فضائل میں صحیحین سے روایات نقل کرتے ھیں،چنانچہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے فضائل سے شروع کرکے حضرت فاطمہ زھرا سلام الله علیھا پھر حسنین علیھما السلام کے مشترکہ فضائل ذکر کریں گے، اس کے بعد ان میں سے ھرایک کے علیٰحدہ فضائل بیان کریں گے ۔
پھلی فضیلت: دشمنانِ علی دشمنانِ خدا ھیں
۱۔,,…عن ابی ذرقال نزلت الآیة:<ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِیْ رَبِّہِمْ [1] فی ستة مِن قر یشٍ عَلِی وَحَمزَة وَ عُبَیدَة بالحا رث، و شیبة بن ربیعة وعُتبة بن ربیعة والولید بن عتبة“[2]
فضائل علی علیہ السَّلام صحیحین کی روشنی میں
ابھی تک ھم نے اھل بیت علیھم السلام اور بارہ اماموں کے فضائل کے بارے میں بطور عموم صحیحین سے روایات آپ کی خدمت میں نقل کیں ھیں اب ھم فرداً فرداً اھل بیت کے فضائل میں صحیحین سے روایات نقل کرتے ھیں،چنانچہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے فضائل سے شروع کرکے حضرت فاطمہ زھرا سلام الله علیھا پھر حسنین علیھما السلام کے مشترکہ فضائل ذکر کریں گے، اس کے بعد ان میں سے ھرایک کے علیٰحدہ فضائل بیان کریں گے ۔
ابوذر کھتے ھیں :
یہ آیت«ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِیْ رَبِّہِ »دو قریش کے گروہ جو راہ خدا میں آپس میں دشمنی اور عداوت رکھتے تھے یہ آیت تین خالص مومن اور قریش کے تین کافروں کے بارے میں نازل ہوئی ھے یعنی علی (ع) ، حمزہ(ع)، عبیدہ بن حارث، یہ توحید کے پرچم کو بلند کرنے کے لئے لڑے اور عتبہ، شیبہ، ولید، یہ توحید کے پرچم کو سرنگوں کرنے کے لئے لڑے۔
۲۔,,… قیس بن عباد عن علی (ع)؛ فینا نزلت ہٰذہ الآیة:< ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِیْ رَبِّہِمْ>۔[3]
قیس بن عباد حضرت علی علیہ السلام سے نقل کرتے ھیں :
آیہٴ < ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّہِمْ> ھماری شان میں نازل ہوئی ۔
دوسری فضیلت : حضرت علی (ع) کی محبت ایمان کی پہچان اور آپ کی دشمنی نفاق کی علامت ھے
۳۔,,…عن عدی بن ثابت عن زر؛قال: قال علی(ع): والَّذی فلق الحبة و بریٴ النسمةانہ لعھد النبی(ص) الا می الی، اَنْ لَایُحِبَّنِی اِلَّا مُوٴمِنٌ وَلاَیَبْغِضُنِی اِلَّا مُنَافِقٌ“
عدی بن ثابت زر سے نقل کرتے ھیں :
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : قسم اس ذات وحدہ لاشریک کی جس نے دانہ کو شگافتہ اور مخلوق کو پیدا کیا کہ یہ رسول(ص) کا مجھ سے عھد و پیمان ھے کہ مجھے دوست نھیں رکھے گ ا سوائے مومن کے اور مجھ سے دشمنی نھیں کرے گ ا سوائے منافق کے۔[4]
تیسری فضیلت :علی (ع) کی نماز رسول(ص)کی نماز ھے
…”عن مُطَرِّف بن عبدالله عن عمران بن حصین؛قال:صلی مع علی علیہ السلام بالبصرة،فقال:ذکرناہذا الرجل صلٰوة نصلیھامع رسول(ص)اللّٰہ، فذکرانہ کان یکبرکلما رفع ،وکلماوضع“[5]
مطرف بن عبد اللہ کھتے ھیں :
ایک مرتبہ عمران بن حُصَین نے بصرہ میں حضرت علی علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھی تو کهنے لگے : آج تو میں نے وہ نماز پڑھی ھیجو رسول(ص) کے پیچھے پڑھا کرتا تھا، کیونکہ رسول(ص) بھی ایسے ھی رکوع و سجود نشست و برخواست میں تکبیر کھا کرتے تھے۔
چوتھی فضیلت:رسول(ص) کاحضرت علی(ع)کو ابو تراب کالقب دینا
”… عن ابی حازم؛ ان رجلاً جاء الی سھل بن سعد، فقال: ہٰذا فلان (امیرالمدینة) یدعو علیاً عند المنبر، قال : فیقول: ماذا قال؟ یقول لہ ابو تراب، فضحک، قال:والله ما سماہ الا النبی، وما کان لہ اسم احب الیہ منہ۔ [6]
ابو حازم کھتے ھیں :
ایک مرد سھل ابن سعد کے پاس آیا اورکهنے لگا: فلاں شخص (امیر مدینہ) رسول(ص) کے منبر کے پاس حضرت علی (ع) کو برا بھلا کھتا ھے، سھل بن سعد نے اس سے پوچھا : وہ کیا کھتا ھے؟ اس نے کھا : علی کو ابوتراب کھتا ھے، سھل یہ سن کر مسکرائے اور کهنے لگے : قسم بخدا یہ نام اور لقب انھیں رسول خدا(ص) کے سوا کسی نے نھیں دیا اور حضرت علی علیہ السلام اس لقب کو دیگر تمام لقبوں سے زیادہ پسند کرتے ھیں ۔
جیساکہ متن حدیث میں آیا ھے کہ لقب ِ ابو تراب وہ لقب تھا جس سے امیرالموٴ منین (ع)خوش ہوتے اور اس پر افتخار کرتے تھے،لیکن دشمنان علی (ع) کو یہ لقب بھی گراں گزرا ،لہٰذا چونکہ اس سے انکار نھیں کرسکتے تھے اس لئے انھوں نے اس میں ایسی تحریف کردی کہ حضرت امیر لموٴمنین (ع) (ع)کی اس لقب سے فضیلت ظاھر نھیں ہوتی،چنانچہ اس لقب کے عطا کرنے کے بارے میں انھوں نے ایسی روایات جعل کیں جن سے امام المتقین حضرت امیر(ع) کی منقصت ظاھر ھو تی ھے، انشاء الله جلد سوم میں ھم اس حدیث کے اور ان دیگر احادیث پر جن سے مولا علی (ع) کی قدح ظاھر ہوتی ھے، کے اسبابِ جعل پر اگر خدا نے توفیق عنایت کی تو بحث کریں گے ۔
پانچویں فضیلت : علی (ع)سب سے زیادہ قضاوت سے آشنا تھے
امام بخاری نے ابن عباس سے نقل کیا ھے:
حضرت عمر نے کھا: حضرت علی (ع)ھم میں سب سے زیادہ قضاوت سے آشنا ھیں ۔” وَاَقْضَاْنَاْعَلِیٌّ “[7]
عرض موٴلف
خلیفہٴ دوم کا اعتراف خود اپنی طرف سے نہ تھا بلکہ رسول(ص) اسلام نے بارھا اس جملہ کو لوگوں کے سامنے فرمایا تھا کہ علی (ع)اصحا ب میں سب سے زیادہ علم قضاوت رکھتے ھیں اور کبھی آپ فرماتے تھے کہ علی (ع)اس امت میں سب سے زیادہ علم قضاوت رکھتے ھیں ۔[8]
بھر حال قابل توجہ نکتہ یھاں پر یہ ھے کہ مسئلہٴ قضاوت میں تقواو پرھیزگاری کے علاوہ وسیع معلومات اور کافی آگاھی کاھو نا ضروری ھے اورجب تک ان علو م سے آشنا نھیں ھو سکتا قضاوت کرنا نا ممکن امر ھے ، لہٰذا حضرت علی علیہ السلام کا بقول مرسل اعظم علم قضاوت میں سب سے زیادہ آشنا ہونا اس بات کی دلیل ھے آپ(ع) سب سے زیادہ علم و آگاھی رکھتے تھے، گویا ”اَقْضَاْھُم “ کا جملہ ” اَعْلَمُھُمْ“ او ر ”اَتَقَاْہُمْ “ وغیرہ …کی جگہ استعمال کیا گیا ھے ۔
چھٹی فضیلت : علی (ع) خدا و رسول(ص) کو دوست رکھتے تھے اور خدا و رسول(ص) آپ کو
”… عن سھل بن سعد؛ قال: قال النبی(ص): یوم خیبر” لَاُعْطِیَنَّ الرَّایَةَ غَداً رَجُلاً یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ وَ یُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ “ فبات الناس لیلتھم ایھم یُعطٰی؟ فغدَوْا کلھم یرجوہ فقال(ص): این علی(ع)؟ فقیل :یشتکی عینیہ، فبصق فی عینیہ ،ودعی لہ، فبرء کاٴن لم یکن بہ وجع،فاعطاہ، فقال(ع): اٴُقاتلھم حتی یکونوا مثلنا ؟ فقال: انفذ علی رِسْلِکَ حتیٰ تَنْزِلَ بِساحَتِھم، ثم ادعھم علی الاسلام، واخبرھم بما یجب علیھم ،فوالله لِاٴَن یھدی الله بک رجلا،خیرٌ لک من ان یکون لک حمر النعم۔[9]
سھل بن سعد نے رسول اسلام(ص) سے نقل کیا ھے:
”رسول خد(ص)ا نیجنگ خیبر کے دن یہ ارشاد فرمایا:
” لَاُعْطِیَنَّ الرَّایَةَ غَداً رَجُلاً یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ وَ یُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ “
کل میں ایسے مرد کو علم دوں گا جو اللہ و رسول(ص)کو دوست رکھتا ھو اور اللہ و رسول (ص)اسے دوست رکھتے ہوں۔ سھل کھتے ھیں: اس شب تمام لشکر اسلام کو چین کی نیند نہ آئی، کیونکہ ھر شخص اسی انتظارمیں تھا کہ کل مجھے علم اسلام مل جائے لیکن رسول(ص) نے ارشاد فرمایا : علی( علیہ السلام) کھاں ھیں ؟
لوگوں نے کھا: ان کی آنکھوں میں درد ھے( آپ نے مولا علی (ع) کو طلب فرما کر) آپ کی آنکھوں میں لعاب دهن لگادیا اور دعا فرمائی:( اے اللہ علی (ع) کو شفا یاب فرما دے)رسول(ص) کی دعا کے نتیجہ میں آپ(ع) کی آنکھیں ایسی ٹھیک ہوگئیں جیسے کہ آپ کی آنکھوں میں درد ھی نہ تھا چنانچہ رسول(ص) نے علم اسلام کو آپ کے ھاتھوں میں دے دیا، آپ(ع) نے فرمایا: یا رسول اللہ!(ص) کب تک جنگ کروں؟ کیا اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ ایمان وعمل میں ھماری جیسے نہ ھو جائیں ؟
رسول(ص) نے فرمایا: اے علی (ع)!اس لشکر کفار کی طرف حرکت کرو ،او رانھیں دعوت اسلام دو، انھیں قوانین اسلام سے آگاہ کرو ،کیونکہ قسم بخدا اگر خدا نے تمھارے ذریعہ سے ایک شخص کو بھی ھدایت فرمادی تو وہ تمھارے لئے سرخ اونٹوں سے بھتر ہوگا۔
مسلم نے اس حدیث کو کچھ اضافہ کے ساتھ بھی نقل کیا ھے :
,,…عن ابی ھریرة؛ان رسول الله قال یوم خیبر:” لَاُعْطِیَنَّ ہٰذِ ہِ الرَّایَةَ رَجُلاً یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ یَفتح ا للّٰہُ عَلٰیَ یَدَیْہ“ قال عمر بن الخطاب:مااحببت الامارة الایومئذٍ،فتساورت لھارجاء ان ادعی لھا،فدعی رسول الله علی بن ابی طالب:فاعطاہ ایاھا،وقال امش ولاتلتفت حتی یفتح ا لله علیک،قال:فسارشیئاًثم وقف ولم یلتفت، فصرخ یارسول الله !علی ماذا اقاتل الناس؟قال:وقاتلھم حتی یشھدواان لاا لٰہ الا الله و ان محمداًرسول الله،فاذافعلوا ذالک،فقدمنعوا منک دمائھم و اموالھم، الا بحقھا وحسابھم علی الله “[10]
ابو ھریرہ نقل کرتے ھیں :
رسول(ص) نے بروز جنگ خیبر یہ ارشاد فرمایا:آج میں اسلام کا علم ایسے مرد کو دوں گا جو الله ا ور رسول(ص) کو دوست رکھتا ھے اور الله اس کے دونوں ھاتھوں پہ فتحیابی بخشے گا،حضرت عمر کھتے ھیں : جب رسول(ص) نے یہ اعلان کیا تو مجھے بھی علم لینے کا دوبارہ اشتیاق ہوا ،چنانچہ آپ کھاکرتے تھے: روز خیبر سے پھلے مجھے کبھی علم اسلام اٹھا نے کا شوق نھیں ہوا! لہٰذا جب میں نے یہ اعلان سنا تو میں بھی( رسول(ص) کے پاس دوڑ کر گیا اور) علم کے ارد گرد گھومنے لگا!اس امید میں کہ (رسول (ص)مجھے دیکھ لیں اور ) علم مل جائے لیکن (افسوس) یہ افتخار علی (ع) کو حا صل ہوااور رسول(ص) نے علی(ص) کو بلایا اور علم آپ کے ھاتھوں میں دینے کے بعد فرمایا : اے علی (ع) ! دشمن کی طرف حرت کرو تاکہ خدا تمھارے ھاتھوں کے ذریعہ اس قلعہ کو فتح کرے ۔
حضرت عمر کھتے ھیں : علی (ع) تھوڑی دور آگے بڑھے اور رک گئے، بغیر اس کے کہ اپنا چھرہ پیغمبر(ص) کی طرف گھماتے ، دریافت فرمایا: اے رسول(ص)! ان لوگوں سے کب تک جنگ کروں ؟ آپ(ص) نے فرمایا :اے علی (ع)! جنگ کرو جب تلک کہ یہ لوگ خدا کی وحدانیت اور میری رسالت کا اقرارنہ کرلیں اور جب ان دوباتوں کو یہ لوگ قبول کرلیں تو ان کا خون ومال محفوظ ہوجائے گا اور ان کا حساب پھر خدا کے اوپر ھے ۔
ساتویں فضیلت : حضرت علی (ع) کی رسول(ص) کے نزدیک وھی منزلت تھی جو ھارون کی موسیٰ کے نزدیک
,, … عن مصعب بن سعد عن ابیہ؛ ان رسول الله (ص)خرج الی تبوک واستخلف علیاً ،فقال:اٴ تخلفنی فی الصبیان والنساء؟ قال رسول اللّٰہ:”اَلاَ ترَضِیْ اَنْ َتکُوْنَ ِمنیِّ بِمَنْزِلَةِ ھاَرُوْنَ مِنْ مُوْسیٰ،اِلاَّ اَنہَّ لَیْسَ نَبِیٌّ بَعْدِیْ“ [11]
مصعب بن سعد نے اپنے باپ سے نقل کیا ھے:
جب رسول اسلام(ص) جنگ تبوک کیلئے خارج ہوئے اور آپ نے علی (ع) کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا ،تو حضرت علی علیہ السلام نے دریافت کیا : یا رسول الله !آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑیجا رھے ھیں ؟ رسول(ص) نیجواب میں ارشاد فرمایا: اے علی (ع) !تمھاری میرے نزدیک وھی منزلت ھیجو ھارون(ع) کی موسی (ع) کے نزدیک تھی بس فرق اتنا ھے کہ وہ موسیٰ (ع) کے بعد نبی تھے اور تم میرے بعد نبی نھیں ھو ۔
مذکورہ حدیث شیعہ وسنی دونوں کے درمیان متفق علیہ ھے ، یھاں تک کہ آپ کے پکے دشمن معاویہ نے بھی اس حدیث سے انکار کرنے کی جراٴت نھیں کی ھے! اس حدیث میں رسول(ص)خدا نے علی (ع) کو تما م چیزوں میں ھارون سے تشبیہ دی ھے اورصرف نبوت کو خارج کیا ھے یعنی ھارون اور علی (ع) کے درمیان صرف نبوت کا فرق ھے بقیہ تمام اوصاف،کمالات، منصب اور مقام میں باھم شریک ھیں ، کیو نکہ اگر فرق ہوتا تو رسول(ص) نیجس طرح نبوت کو جدا کر دیا،اسی طرح دوسری جھت کو بھی جدا کر دیتے، لہٰذا رسول(ص) کا دیگر مناصب و کمالات سے استثنا ء نہ کرنا بیّن دلیل ھے کہ آپ میں ھارون(ع) کے تمام اوصاف پائیجانے چاھیئے تب تشبیہ صحیح قرار پائے گی اور جاننا چاھیئے کہ جناب ھارون مندجہ ذیل منصب اور کمال پر فائز تھے لہٰذا مولا علی (ع) میں یہ اوصاف پائیجانے چاھیئے تاکہ تشبیہ صحیح قرار پائے :
۱۔ مقام وزارت :جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ نبوت کے علاوہ تمام اوصاف علی (ع) میں پائیجانے چاھیئے تب مذکورہ تشبیہ صحیح ہوگی، لہٰذا جس طرح حضرت موسی (ع)کے بھائی ھارون (ع) آ پ کے وزیر تھیجیساکہ قرآن میں ارشاد ہوا
:<وَاجْعَلْ لِیْ وَزِیْراً مِنْ اَھْلِیْ. ھَاْرُوْنَ اَخِیْ [12]
اسی طرح حضرت علی علیہ السلام بھی رسول اسلام(ص) کے وزیر ھیں ، یھی وجہ ھے کہ ر سول(ص) نے متعدد جگہوں پر علی (ع) کے لئے اپنی وزارت کا اظھار کیا ھے۔
۲۔ مقام اخوت و برادری :جس طرح ھارون موسی (ع) کے بھائی تھے<ہَاْرُوْنَ اَخِیْ> اسی طرح علی (ع) بھی رسول(ص) کے( رشتہ اور روحا نی اعتبار سے) بھائی ھیں ۔
۳۔ مقام خلافت:جس طرح موسی (ع)نے ھارون کو کوہ طور پر جانے کے وقت اپنا خلیفہ بنایا:<…وَقَاْلَ مُوْسیٰ ِلَاخِیْہِ ہَاْرُوْنَ اخْلُفنِْیْ فِیْ قَوْمِیْ…[13]
جناب ھارون(ع) بنی اسرائیل کے درمیان حضرت موسی (ع) کے خلیفہ اور جانشین قرار پائے اور حضرت موسیٰ (ع)نے ھارون کی اطاعت کو بنی اسرائیل پر واجب قرار دیااور ھارون(ع) کو وصیت کی کہ رسالت کی تبلیغ کریں اور میرے دین کو وسعت دیں ، اسی طرح حضرت علی علیہ السلام رسول اسلام(ص) کے خلیفہ اور جانشین ھیں ۔
۴۔ مقام وصایت: جب تک موسی (ع) زندہ تھے ھارون موسیٰ کے خلیفہ اور جانشین تھے، لہٰذا اگر حضرت موسیٰ (ع)
(ع)وفات پا جاتے تو یقینا حضرت ھارون (ع)ھی ان کے وصی قرار پاتے، لیکن ھارون(ع) کا انتقال جناب موسیٰ کی حیات میں ھو گیاتھا،بھرحال جس طرح حضرت موسی (ع)کے ھارون(ع) وصی ہوتے اسی طرح حضرت علی (ع) بھی مذکورہ حدیث کے مطابق پیغمبر (ص)کے وصی ھیں ۔
۵۔ مقام معاونت:جس طرح جناب ھارون حضرت موسی علیہ السلام کے قوت بازو اور امر رسالت میں معاون تھے ،جیساکہ قرآن میں جناب موسی (ع) کی ھارون(ع) کے بارے میں دعا اور اس کے قبول ہونے کے الفاظ آئے ھیں :
<اُشْدُدْ بِہ اَزْرِی.وَاَشْرِکْہُ فِیْ اَمْرِیْ .…قَاْلَ َقْد اُوْتِیت سُوْٴلَکَ یٰا مُوْسٰی>[14]
اسی طرح حضرت علی علیہ السلام بھی اس صریح حدیث کے مطابق رسول(ص) کے قوت بازو اور معاونِ رسالت تھے ،البتہ خلافت اور جانشینی کے اعتبار سے نہ نبوت کے لحا ظ سے ۔
بھرحال مذکورہ حدیث کی روشنی میں یہ بات بھی ثابت ھو جاتی ھے کہ رسول(ص) اسلام کی نظر میں آپ کی زندگی اور آپ کی وفات کے بعد آپ کے نزدیک سب سے بھترین اور خیر امت حضرت علی (ع) تھے اور جس طرح بنی اسرائیل پر ھارون کی اطاعت واجب و لازم تھی، اسی طرح امت محمدی پر رسول(ص)کی زندگی میں احترام علی (ع) واجب تھا اور رسول(ص) کی وفات کے بعد آپ کی اطاعت واجب و لازم تھی کیونکہ رسول(ص) کی وفات کے بعد حضرت امیر (ع)،افضل الناس، ناصر رسول(ص) اور آنحضرت (ص)کے حقیقی جانشین تھے ۔
ایک قابل توجہ نکتہ
اس جگہ ایک غلط فھمی کا ازالہ کر دینا لازم سمجھتا ہوں وہ یہ کہ بعض اھل سنت یہ سمجھتے ھیں کہ رسول(ص) نے حدیث ِمنزلت صرف جنگ تبوک کی طرف روانہ ہوتے وقت ارشاد فرمائی تھی( اس کے بعد کھیں نھیں فرمایا) لہٰذا حضرت علی(ص) کی خلافت ایک زمانہ کے لئے مخصوص اور محصور ھے،برادرم ایسا نھیں ھے بلکہ اھل سنت کی متعدد معتبر کتابوں کے مطابق رسول(ص)نے تقریباًچھ موارد پر یہ حدیث اختلاف زمان و مکان کے ساتھ ارشاد فرمائی ھے ، لہٰذا حدیث ِمنزلت کو ایک خاص زمانہ میں منحصر نھیں کیا جاسکتا ۔[15]
آٹھو یں فضیلت : علی (ع) رسول(ص) سے اور رسول(ص) علی (ع) سے ھیں ۔
”اَنْتَ مِنّیِ وَاَنَاْ مِنْکَّّ “حضرت رسالتمآب(ص) نے فرمایا: اے علی! تو مجھ سے ھے اور میں تجھ سے ہوں۔
صحیح بخاری ،جلد ۵، کتاب فضایل الصحا بة، باب”مناقب علی“۔ جلد۴، کتاب المغازی، باب(۴۱)”عمرةالقضاء (صلح حدیبیہ)“حدیث۴۰۰۵ ۔ کتاب الصلح ،باب(۶) ”کیف یُکتَبُ: ھذاماصالح فلان بن فلان“۲۵۵۲ ۔ مترجم.
نویں فضیلت:رسول(ص)وقتِ وفات علی(ع)سے راضی رخصت ہوئے
حضرت عمر کا بیان ھے : جب رسول (ص)نے وفات پائی تو آپ حضرت علی علیہ السلام سے راضی تھے۔صحیح بخاری جلد ۵،کتاب فضائل الصحا بة ،باب” مناقب علی(ص) (قبل از حد یث نمبر ۳۴۹۸)“ باب ”قصہ البیعة والاتفاق علی عثمان “حدیث ۳۴۹۷۔ مترجم.
محترم قارئین! جیساکہ آپ نے مولا علی (ع)کے فضائل صحیحین کی روشنی میں ملاحظہ فرمائے اور پھر قول حضر ت عمر بھی ملاحظہ فرمایا کہ رسول(ص) کی وفات جب ہوئی تو آپ(ص) علی (ع)سے راضی تھے ،لیکن خود قائل کی پوزیشن کیا تھی؟معلوم نھیں ،کیونکہ صحیح بخاری کے بموجب آنحضرت(ص)نے بوقت وفات جب قلم و دوات مانگی توحضرت عمر نے منع کردیا تھا جس کی وجہ سے رسول(ص) ناراض ہوگئے اور آپ نے حضرت عمر کو اپنے گھر سے باھر نکال دیا، چنانچہ محترم موٴلف صاحب نے بحث ”واقعہ قرطاس“ ص۶۲۲پر اس بات کو تفصیل کے ساتھ نقل کیاھے۔
حوالہ جات
[1] سورہٴ حج آیت ۹،پ ۱۷۔
[2] صحیح بخاری:جلد ۵،کتاب المغازی،باب(۸)” قتل ابی جھل“ حدیث۳۷۴۷ ، ۳۷۵۱ ، ۳۷۵۰ ، ۳۷۴۸ ، ۳۷۴۹۔ جلد۶،کتاب التفسیر،تفسیر سورہ الحج،باب (۳) آیہٴ < ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّہِمْ>حدیث۴۴۶۷۔[3] صحیح بخاری:جلد ۵،کتاب المغازی،باب(۸)” قتل ابی جھل“ حدیث۳۷۴۷ ، ۳۷۵۱ ، ۳۷۵۰ ، ۳۷۴۸ ، ۳۷۴۹۔ جلد۶ ،کتاب التفسیر،تفسیر سورہ الحج،باب (۳) آیہٴ < ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّہِمْ>حدیث۴۴۶۷۔[4] صحیح مسلم جلد ۳ ،کتاب الایمان، باب(۳۳) ”ان حب الانصاروعلی(ع) من الایمان“ حدیث۷۸۔[5] صحیح بخاری جلد ۱، کتاب الصلوٰة، باب” اتمام تکبیر فی الرکوع “حدیث۷۵۱، باب” اتمام التکبیر فی السجود“ حدیث۳۵۳۔مترجم:(صحیح بخاری جلد۱،کتاب الصلوٰة،باب ”یکبر وھو ینھض من السجدتین“ حدیث۷۹۲۔) صحیح مسلم جلد۲، کتاب الصلوٰة،باب(۱۰)” اثبات التکبیر فی کل خفض ورفع“ حدیث ۳۹۳۔[6] صحیح بخاری جلد۴ ،کتاب فضایل الصحا بة،باب”مناقب علی ابن ابی طالب(ع)“ حدیث۳۵۰۰۔ جلد ۱،کتاب الصلاة ابواب المسجد،باب”نوم الرجل فی المسجد“حدیث۴۳۰،جلد۴، کتاب الادب، باب” التکنیّ بابی تراب“ حدیث۵۸۵۱۔ جلد۸ ،کتاب الاستئذان، باب” القائلہ فی المسجد“ حدیث۵۹۲۴۔ صحیح مسلم جلد۷،کتاب فضائل الصحا بة، باب” فضائل علی ابن ابی طالب علیہ السلام“حدیث۲۴۰۹۔
[7] صحیح بخاری ،جلد ۶، کتاب التفسیر سورہ ٴ بقر ہ ،باب ”تفسیر ماننسخ من آیة“(۱۰۶)حدیث۴۲۱۱۔
[8] سنن ابن ماجہ جلد۱۔(اس کتاب میں حقیر نے اس جملہ کو نھیں دیکھا ھے۔مترجم۔) استیعاب جلد۱ ،حرف العین باب علی صفحہ ۸۔ (اس کتاب میں اقضانا اور اقضاھم آیا ھے ۔ )[9] صحیح بخاری: جلد۴ ،کتاب الجھاد و السیر ، باب۱۲۱ ”ما قیل فی لواء النبی(ص) “حدیث ۲۸۱۲، باب۱۴۳” فضل من اسلم علی یدیہ رجل“ حدیث۲۸۴۷،کتاب فضایل الصحابہ، باب(۹)” مناقب علی ابن ابی طالب “حدیث۳۴۹۸،۳۴۹۹۔ صحیح مسلم :جلد۷ ،کتاب فضائل الصحا بة ،باب” فضائل علی ابن ابی طالب“ حدیث۰۵ ۲۴، کتاب الجھاد و السیر، باب(۴۵)” عزوہ ذی قرد وغیرھا“ حدیث۱۸۰۷۔مترجم:(صحیح بخاری: جلد۴ ، کتاب الجھاد و السیر ،با ب” دعاء النبی(ص) الی الاسلام النبوة“حدیث۲۷۸۳۔کتاب فضائل الصحا بة باب ”عزوہ خیبر“حدیث۳۹۷۲،۳۹۷۳۔
مسلم نے ایک حدیث میں اس شعر کو بھی نقل کیا ھے جسے حضرت علی (ع) نے مرحب کے مقابل پڑھا تھا:
اناا لذی سمّتنی امی حیدرہ کلیث غابات کریہ المنظرہ)
[10] صحیح مسلم جلد۷، کتا ب فضائل الصحا بة ،با ب( ۴)” فضائل علی ابن ابی طالب“حدیث ۲۴۰۵۔
[11] صحیح بخاری :جلد۵،کتاب فضایل الصحا بة ،باب(۹) ”مناقب علی ابن ابی طالب علیہ السلام“حدیث ۳۵۰۳۔جلد ۵،کتاب المغازی، باب(۷۴) ”عزوہ تبوک “حدیث۴۱۵۴۔
صحیح مسلم جلد ۲ ،کتاب فضائل الصحا بة، باب” فضائل علی (ع)“حدیث۲۴۰۴
(یہ حدیث دیگر سند کے ساتھ بھی اس کتاب میں مذکور ھے) ۔
[12] سورہٴ طہ، آیت ۳۰، پ ۱۶۔
[13] سورہ ٴاعراف، آیت۱۴۲،پ۹۔[14] سورہٴ طٰہٰ ،آیت نمبر۳۱، ۳۲، ۳۶، پ ۱۶۔
[15] تفصیل دیکھئے: کتاب ”المراجعات “ مصنفہ علامہ سید شرف الدین ، و ”کفایة الطالب فی مناقب علی بن ابی طالب ص۲۸۱، باب (۶۰)”فی تخصیص علی بقولہ(ص)انت بمنزلة ھارون من موسی …“ مطبوعہ:۱۳۹۰ “(اس کتاب کے ساتھ گنجی شافعی کی دوسری کتاب ”البیان فی اخبار صاحب الزمان“بھی شائع ہوئی ھے۔