مولا علی علیہ السلام
تاریخ اسلام میں ہے کہ حضرت علی علیہ السّلام کے امتیازی اوصاف وکمالات اور خدمات کی بنا پر رسول (ص) ان کی بہت عزت کرتے تھے اور اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو بیان کرتے رہتے تھے کبھی یہ کہتے تھے کہ ” علی (ع) مجھ سے ہیں اور میں علی (ع) سے ہوں ” کبھی یہ کہا کہ ” میں علم کاشہر ہوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ہے ” کبھی یہ کہا ” تم سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی(ع) ہے ” کبھی یہ کہاکہ ” علی (ع) کومجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ (ع) سے تھی” کبھی یہ کہاکہ ” علی (ع) مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یاسر کو بدن سے ہوتا ہے”
کبھی یہ کہ” وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں ” یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں علی علیہ السّلام کو نفس رسول کاخطاب ملا عملی اعزاز یہ تھا کہ مسجد میں سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کادروازہ کھلا رکھا گیا جب مہاجرین وانصار میں بھائی چارہ کیا گیا تو علی علیہ السّلام کو پیغمبر (ص)نے اپنا دنیا واخرت میں بھائی قرار دیااور سب سے اخر میں غدیر خم کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں علی علیہ السّلام کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس کا میں سرپرست اورحاکم ہوں اس اس کے علی علیہ السّلام سرپرست اور حاکم ہیں یہ اتنا بڑا اعزاز ہے کہ تمام مسلمانوں نے علی علیہ السّلام کو مبارک باد دی اور سب نے سمجھ لیا کہ پیغمبر اسلام (ص) نے علی علیہ السّلام کی ولی عہدی اور جانشینی کااعلان کردیا ہےافسوس ہے کہ یہ امن , مساوات اور اسلامی تمدّن کا علمبردار دنیا طلب لوگوں کی عداوت سے نہ بچ سکا اور 19ماہ رمضان 40ھ کو صبح کے وقت خدا کے گھر یعنی مسجد میں عین حالت نماز میں زہر آلودہ تلوار سے انکے سر اقدس کوزخمی کیا گیا آپ کے رحم وکرم اور مساوات پسندی کی انتہا یہ تھی کہ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لائے اور آپ نے دیکھا کہ اس کاچہرہ زرد ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں تو آپ کو اس پر بھی رحم آگیا اور اپنے دونوں فرزندوں امام حسن علیہ السّلام وامام حسین علیہ السّلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ تمھارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا . اگر میں اچھا ہوگیا تو مجھے اختیار ہے میں چاہوں گا تو سزا دوں گا اور چاہوں گا تو معاف کردوں گا اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور تم نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضربت لگانا , کیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضربت لگائی ہے اور ہر گز اس کے ہاتھ پاوں وغیرہ قطع نہ کیے جائیں , اس لیے کہ یہ تعلیم اسلام کے خلاف ہے , دو روز تک علی علیہ السّلام بستر بیماری پر انتہائی کرب اور تکلیف کے ساتھ رہے اخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور 21رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی شہادت واقع ہوئی امام حسن علیہ السّلام وامام حسین علیہ السّلام نے تجہیزو تکفین کی اور نجف کی سرزمین میں انسانیت کے عظیم تاجدار کو ہمیشہ کے لیے سپرد خاک کردیا