ماں کا خواب
(ماخوذ)
بچوں کے لیے
میں سوئی جو اک شب تو دیکھا یہ خواب |
بڑھا اور جس سے مرا اضطراب |
یہ دیکھا کہ میں جا رہی ہوں کہیں |
اندھیرا ہے اور راہ ملتی نہیں |
لرزتا تھا ڈر سے مرا بال بال |
قدم کا تھا دہشت سے اٹھنا محال |
جو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھی |
تو دیکھا قطار ایک لڑکوں کی تھی |
زمرد سی پوشاک پہنے ہوئے |
دئیے سب کے ہاتھوں میں جلتے ہوئے |
وہ چپ چاپ تھے آگے پیچھے رواں |
خدا جانے جانا تھا ان کو کہاں |
اسی سوچ میں تھی کہ میرا پسر |
مجھے اس جماعت میں آیا نظر |
وہ پیچھے تھا اور تیز چلتا نہ تھا |
دِیا اُس کے ہاتھوں میں جلتا نہ تھا |
کہا میں نے پہچان کر میری جاں! |
مجھے چھوڑ کر آ گئے تم کہاں؟ |
جدائی میں رہتی ہوں میں بے قرار |
پروتی ہوں ہر روز اشکوں کے ہار |
نہ پروا ہماری ذرا تم نے کی |
گئے چھوڑ، اچھی وفا تم نے کی |
جو بچے نے دیکھا مرا پیچ و تاب |
دیا اس نے منہ پھیر کر یوں جواب |
رلاتی ہے تجھ کو جدائی مری |
نہیں اس میں کچھ بھی بھلائی مری |
یہ کہہ کر وہ کچھ دیر تک چپ رہا |
دیا پھر دکھا کر یہ کہنے لگا |
سمجھتی ہے تُو ہوگیا کیا اسے؟ |
ترے آنسوؤں نے بجھایا اسے! |
شاعر کا نام: علامہ محمد اقبال
پیشکش: شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان
متعلقہ تحریریں:
تین سوالوں کا ایک جواب
اٹھاتا ہوں پھر ہاتھ لب پہ دعا ہے
تاروں بھری رات
رات
زميں پہ پھول آسماں پہ تارے
ہماری زبان – ترانہ
خدا کي تعريف