• صارفین کی تعداد :
  • 3753
  • 4/30/2011
  • تاريخ :

حضرت فاطمہ (س) کے گھر کی بے احترامی (دوسرا حصّہ)

حضرت فاطمہ(س)

طبری اور اس کی تاریخ

مشہورمورخ محمد بن جریر طبری(م۳۱۰) اپنی کتاب میں آپ کے گھر کی بے احترامی کے متعلق اس طرح بیان کرتا ہے :

اتی عمر بن الخطاب منزل علی و فیہ طلحة والزبیر و رجال من المھاجرین، فقال واللہ لاحرقن علیکم او لتجرجن الی البیعة، فخرج علیہ الزبیر مصلتا بالسیف فعثر فسقط السف من یدہ، فوثبوا علیہ فاخذوہ ۔

عمر بن خطاب، حضرت علی کے گھر آیا جبکہ طلحہ، زبیر اور کچھ مہاجرین وہاں پر جمع تھے، اس نے ان کی طرف منہ کرکے کہا: خدا کی قسم اگر بیعت کیلئے باہر نہیں آؤ گے تو اس گھر میں آگ لگا دوں گا ، زبیر تلوار کھینچ کر باہر نکلا، اچانک اس کو ٹھوکر لگ گئی اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی پھر تو دوسرے لوگوں نے اس کے اوپر حملہ کردیا اور اس کو پکڑ لیا۔

تاریخ کے اس حصہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ کی بیعت رعب و وحشت اور دھمکی دے کر لی جاتی تھی، لیکن اس بیعت کا کیا فائدہ ہے اس کا فیصلہ خود قاری محترم کے اوپر ہے۔

 ابن عبد ربہ اور کتاب ”العقد الفرید“

شہادب الدین احمد معروف بہ ابن عبد ربہ اندلسی، کتاب ”العقد الفرید“ (م ۴۶۳) کے مولف نے اپنی کتاب میں سقیفہ کی تاریخ سے متعلق وضاحت کی ہے اور جن لوگوں نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی اس عنوان کے تحت لکھتا ہے :

فاما علی والعباس والزبیر فقعدوا فی بیت فاطمة حتی بعث الیھم ابوبکر، عمر بن الخطاب لیخرجھم من بیت فاطمة وقال لہ: ان ابوا فقاتلھم، فاقبل یقیس من ناز ان یضرم علیمھم الدار، فلقیتہ فاطمة فقال : یا ابن الخطاب اجئت لتحرق دارنا؟! قال: نعم، او تدخلوا فیما دخلت فیہ الامة۔

علی، عباس اور زبیر حضرت فاطمہ کے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ابو بکر نے عمر بن خطاب کو بھیجا تاکہ ان کو حضرت فاطمہ کے گھر سے باہر نکالے اور اس سے کہا : کہ اگر باہر نہ آئیں تو ان سے جنگ کرو! عمر بن خطاب تھوڑی سی لکڑیاں لے کر حضرت فاطمہ کے گھر کی طرف چلا تاکہ گھر کو آگ لگائے اچانک حضرت فاطمہ سے سامنا ہوا ، پیغمبر اکرم (ص) کی بیٹی نے کہا : اے خطاب کے بیٹے کیا ہمارے گھر کو آگ لگانے آئے ہو؟ اس نے جواب دیا : ہاں ، مگر یہ کہ جس چیز کو امت نے قبول کرلیا ہے تم بھی اس کو قبول کر لو!

یہاں تک اس بحث کی وضاحت کی گئی ہے جس میں بے حرمتی کا ارادہ کیا گیا ہے اب اس مقالہ کے دوسرے حصہ سے بحث کرتے ہیں جس میں بیان کیا جائے گا کہ انہوں نے اپنے اس برے ارادہ کو عملی جامہ بھی پہنا یا ہے تاکہ یہ تصور نہ کیا جائے کہ اس سے مراد ڈرانا اوردھمکانا تھا تا کہ علی(علی علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو بیعت کیلئے مجبور کریں اور ایسی دھمکی کو عملی جامہ نہیںپہنانا چاہتے تھے۔حملہ ہوگیا!

یہاں تک ان لوگوں کی باتوں کو بیان کیا گیا ہے جنہوں نے خلیفہ اور اس کے دوستوں کی بری نیت کی طرف اشارہ کیا ہے ، وہ گروہ جو اس واقعہ کو اچھی طرح یالکھنا نہیں چاہتے تھے یا نہیںلکھ سکے، جب کہ بہت سے علماء ایسے ہیں جنہوں نے اصل واقعہ یعنی حضرت زہرا (س) کے گھر پر حملہ کی طرف اشارہ کیا ہے اور اب ہم حضرت فاطمہ (س) کے گھر پر حملہ اور اس کی بے احترامی کے متعلق دلیلیں بیان کرتے ہیں(اور اس حصہ میں مآخذ و منابع کو بیان کرنے میں زمانے کی ترتیب کو رعایت کریں گے)۔

 ابوعبید اور کتاب ”الاصول“

ابوعبید، قاسم بن سلام (م۲۲۴) کتاب الاموال جس پر اہل سنت کے فقہاء اعتماد کرتے ہیں،میں لکھتا ہے : عبدالرحمن بن عوف کہتا ہے : جب ابوبکر بیمار تھا تو میں اس کی عیادت کیلئے گیا اس نے بہت سی باتیں کرنے کے بعد کہا : اے کاش کہ تین کام جو میں نے اپنی زندگی میں انجام دئیے ان کو انجام نہ دیتا اور تین کام جو انجام نہیں دئیے ان کو انجام دیتا اسی طرح آرزو کرتا ہوں کہ پیغمبر اکرم سے تین چیزوں کے بارے میں سوال کرتا جن میں سے ایک کو میں انجام دے چکا ہوں اور آرزو کرتا ہوں کہ اے کاش انجام نہ دیتا ”وددت انی لم اکشف بیت فاطمة و ترکتہ و ان اغلق علی الحرب “ ۔ اے کاش حضرت فاطمہ کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا اگر چہ وہ جنگ ہی کیلئے بند کیا گیا تھا ۔

ابوعبیدہ جب اس جگہ پہنچتے ہیں تو ”لم یکشف بیت فاطمة و ترکتہ“ کے جملہ کی جگہ کو”کذا و کذا“ لکھ کر کہتے ہیں کہ میں ان کو بیان نہیں کرنا چاہتا۔

ابوعبید نے اگرچہ مذہبی تعصب یا کسی اور وجہ سے حقیقت کو نقل نہیں کیا ہے لیکن کتاب الاموال کے محققین نے اس کے حاشیہ پر لکھا ہے : جس جملہ کو حذف کردیا گیا ہے وہ کتاب میزان الاعتدال (جس طرح بیان ہوا ہے) میں بیان ہوا ہے اس کے علاوہ طبرانی نے اپنی معجم میں او رابن عبد ربہ نے عقدالفرید اور دوسرے افراد نے اس جملہ کو بیان کیا ہے(ملاحظہ فرمائیں)۔

طبرانی اور ”معجم الکبیر“

ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی(۲۶۰۔۳۶۰) جن کو ذہبی اپنی کتاب میزان الاعتدال میں معتبر سمجھتے ہیں کتاب المعجم الکبیرمیںجو کہ کئی مرتبہ چھپ چکی ہے ابوبکر، اس کے خطبہ اور اس کی وفات کے متعلق لکھتا ہے :

ابوبکر نے مرتے وقت کچھ چیزوں کی تمنا کی اور کہا : اے کاش تین کاموں کو انجام نہ دیتا، تین کاموں کو انجام دیتا اورتین کاموں کے متعلق پیغمبر اکرم (ص) سے سوال کرتا: ”اما الثلاث اللائی وددت انی لم افعلھن، فوددت انی لم اکن اکشف بیت فاطمة و ترکتہ، ...

وہ تین کام جن کی میں آرزو کرتا ہوں کہ اے کاش انجام نہ دیتا ان میں سے ایک حضرت فاطمہ کے گھر کی بے حرمتی ہے کہ اے کا ش میں ان کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا اور اس کو اسی حالت پر چھوڑ دیتا ۔

ان تعبیروں سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ عمر کی دھمکی کو عملی جامہ پہنایا گیا اور گھر کو زبردستی (یا آگ لگانے کے ذریعہ) کھولا گیا۔

اردو مکارم ڈاٹ  آئی آڑ


متعلقہ تحریریں:

فضائل فاطمہ (س) قرآن کی زبانی

فاطمہ زہرا (س) عالم کے لئے نمونہ عمل

حضرت فاطمہ کا انصار سے خطاب کے آثار

حضرت فاطمہ کا انصار سے خطاب

مسجد نبوی میں فاطمہ زھرا (ع) کا تاریخ ساز خطبہ (حصّہ چهارم)