انصاف کی ضرورت
فان فی العدل سعۃ و من ضاق علیہ العدل فالجور علیہ اضیق" عدل میں کشادگی اور وسعت ہے ہر شخص کے لئے، حتی اس فرد کے لئے بھی جس کے خلاف فیصلہ سنایا گيا ہے، اگر عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنایا گيا ہے تو اگر اس شخص کو جس کے خلاف یہ فیصلہ گیا ہے اس میں سختی محسوس ہو تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ظلم کو معیار قرار دیا گیا تو فیصلہ اور زیادہ سخت اور ناقابل تحمل ہوگا کیونکہ ممکن ہے کہ ظالمانہ عدالت میں اسے ایک کامیابی مل جائے لیکن زندگی کے دوسرے سیکڑوں مراحل میں نا انصافی کا خطرہ اس کے گریبان گیر ہوگا۔ انصاف کیا جانا چاہئے اور دولت، طاقت، بیوروکریسی، اشرافیہ کچھ بھی عدل پر حاوی نہیں ہونا چاہئے۔
اگر عدالت کے اختیارات سے عدل و انصاف کو نقصان پہنچے تو یہ بہت خطرناک ہے۔ عدلیہ کی برتری کو اس انداز سے یقینی بنایا جانا چاہئے کہ اس سے قیام عدل و انصاف میں مدد ملے کیونکہ عدل ہی معیار و اصول ہے۔
ایسا نہیں سوچنا چاہئے کہ جس کے خلاف فیصلہ سنایا گيا ہے اس کے سلسلے میں عدل و انصاف بس یہ ہے کہ اسے جیل میں ڈال دیا جائے اور پھر مدت پوری ہو جانے کے بعد اسے رہا کر دیا جائے، یہ تو انصاف کا صرف ایک پہلو ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جیل اس کے لئے ایسی جگہ نہ بنے جہاں وہ اور زیادہ منحرف ہو جائے، اس کی شخصیت تباہ ہو کر رہ جائے اور اس کا خاندان بد بختی کی زندگی بسر کرے۔
بشکریہ خامنہ ای ڈاٹ آئی آڑ
متعلقہ تحریریں:
انقلاب اسلامي کے خلاف استکبار ي منصوبہ
امریکہ اور عوامي نفرت
اسلامي انقلاب سے دشمني کي اصل وجہ
استکبار کا تنہا مقابل
جذبات اور احساسات سے غلط استفادہ