جامی سرہ السامی
جامی فارسی ادب کے ایک مشہور شاعر تھے ۔ ان کا اصل نام " نورالدین عبدالرحمن " اور تخلص جامی تھا ۔ وہ 817 ہجری کو"جام " میں پیدا ہوۓ اسی وجہ سے جامی معروف ہو گۓ ۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے اپنے والد سے حاصل کرنا شروع کی مگر مزید تعلیم کے لیۓ وہ موجودہ افغانستان کے شہر " ہرات " میں واقع ایک " مدرسہ نظامیہ " نامی درس گاہ تشریف لے گۓ ۔ وہ ایک ذہین انسان تھے ۔ انہوں نے بہت ہی جلد مروجہ علوم و فنون میں مہارت حاصل کر لی ۔ مذھب سے ان کو بےحد لگاؤ تھا جس کی وجہ سے انہوں نے شرعی احکام و سنن اور رسوم و آداب کی پیروی کی ۔ وہ اپنی علمی قابلیت اور درویشی کے باوجود زاہد خشک نہ تھے ۔ ان کا شمار تیموری دور کے معروف شعراء میں ہوتا تھا ۔ جامی کثیر التصانیف بزرگ تھے ۔ دیوان کامل جامی غزلیات ، قصائد اور ترجیعات پر مشتمل ہے ۔
" ہفت اورنگ " میں ان کی سات مثنویاں شامل ہیں ( سلسلتہ الذہب ، سلامان والبسال ، تحفتہ الاحرار ، سبحتہ الابرار ، یوسف و زلیخا ، لیلی و مجنوں اور خردنامہ سکندری ) ۔
علوم نقلی میں شروح قرآن مجید ، شواہدالنبوت، مناقب شیخ الاسلام عبداللہ انصاری اور نفحات الانس تصوف کے موضوع پر اشعتہ اللمعات ، شرح لمعات عراقی ، لوایح ، شرح فصوص الحکم وغیرہ ۔ سعدی کی پیروی میں بہارستان لکھی جو کہ بےحد معروف ہے ۔
جامی نے قصائد بھی تحریر کیۓ ۔ ان کے قصائد کی خاص بات یہ ہے کہ وہ دور کے سلاطین کی مدح میں نہیں بلکہ مسجدوں ، خانقاہوں ، باغوں اور مدرسوں پر توصیفی نظموں کی شکل میں ہیں ۔ ان کے قصائد سبک اور ان میں روانی پائی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ ان کے قصائد پر سبک خراسانی کا رنگ بےحد نمایاں ہے ۔ جامی کی غزلوں میں جہاں عشق و محبت ، ہجر و فراق ، ناز و ادا کا رنگ نمایاں ہے وہیں مضامین عیش و نشاط اور تصوف بھی نظر آتے ہیں ۔ مکہ و مدینہ میں حج کے موقع پر ان کی نعتیہ غزلیں اپنے سوز و ساز کی وجہ سے مقبول ہیں ۔
ترتیب و پیشکش : سید اسداللہ ارسلان
متعلقہ تحریریں:
امیر دولت شاہ
اوحدالدین محمد بن محمد " انوری "
ناصر خسرو قبادیانی
میرزا تقی امیر کبیر
خیام نیشابوری
مہرداد اوستا بروجردی
مير زاده عشقي
حکیم نظامی گنجوی، فارسی کا ایک بڑا شاعر
حکیم نظامی گنجوی، فارسی کا ایک بڑا شاعر (حصّہ دوّم)
ابوریحان البیرونی