اعليٰ حکّام کو لاحق خطرات
بندئہ ناچیز نے چند سال قبل اسلامي نظام کے عہدید اروں کي عزت اورمعاشرے ميں ان کے مقام و شرف کو آلودہ کرنے والي چیزوں کو مکرراً بیان کیا ہے، لیکن کبھي کبھي انسان یہ احساس کرتا ہے کہ کسي اہم مطلب کو بار بار بیان کر ے تاکہ وہ دل و دماغ ميں راسخ ہو جائے کيونکہ ان کا نقصان بہت ہي زيا دہ ہے ۔ميں ملک کے اعليٰ حکام کو مضر و خطرناک کاموں سے آگاہ کرتا رہتا ہوں تاکہ وہ ہوشیار و بیدار رہيں اور اپنے ماتحتوں کي حفاظت بھي اپنے وظائف کا حصہ سمجھيں۔اگر خدا نخواستہ کچھ لوگ لغزش کا شکار ہيں تو کوشش کریں کہ ان کي یہ کوتاہياں دور ہوں ،حکومتي عہدیداروں کو چاہئے کہ اپني طرف متوجہ رہیں ۔ ان باتوں کا ہرگز یہ مطلب نہيں کہ سارے حکومتي عہدیدار مشکلات کا شکار ہيں۔ ان مسائل کا پروپیگنڈا کرنا يا انھيں بڑھا چڑھا کر بیان کرنا بہت بڑي غلطي ہے۔ ہم جانتے ہيں کہ دشمن کي دلي خواہش بھي مسائل کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا ہے تاکہ ان پروپیگنڈوں کو لوگو ں کے ذہنوں ميں بٹھایا جا سکے ۔
البتہ ميں جو چیز آپ لوگوں سے چاہتا ہوں وہ یہ کہ آپ حکومتي عہدیداروں کو چاہيے کہ پر آسائش زندگي اورثروت اندوزي کي دوڑ ،کہ جو بعض لوگوں ميں موجود ہے، کي روک تھام کریں اوراسے بالکل پھيلنے نہ ديں۔ ہمارے تمام حکومتي عہدیدار متوسط زندگي گزار رہے ہيں لیکن اگر کچھ افراد ایسے ہوں جو اپنے عہدوں سے غلط فائدہ حاصل کرنے کي فکر ميں پڑجائیں اس لئے کہ انھیں اس بات کا علم ہے کہ ُان کے یہ اختیارات بہت ہي محدود مدت کے لئے ہيں لہذا اس مدت ميں دولت جمع کر لي جائے اور اپنے حکومتي اقتدار کے بعد کي زندگي کا خیال ان کي فکر پر مسلط ہو جائے یا یہ کہ کچھ لوگ چاہیں کہ ہمیشہ کیلئے اس عہدے ا ور قدرت کو اپنے نام سے منسلک کر دیں ۔ یہي وہ چیز یں ہيں کہ جو انسان کو طغیان اور سر کشي کي طرف کھینچتي ہيں ۔ انسان کي سرکشيوں ميں سے ایک سرکشي یہ ہے کہ وہ قدرت کہ جسے اسلامي نظام نے اسے بعنوان خدمت دي ہے ،ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اسے اپنا بنا لے یا اس قدرت و اختیار کو جو اس کے کنٹرول ميں ہے، اپنے شخصي و ذاتي اور غیر شرعي کاموں کیلئے استعمال کرے۔ یہ وہي خطائیں اور لغزشیں ہيں کہ جن سے پرہیز بہت ضروري ہے۔
ميں بہت ہي اہم اور کلیدي عہدوں پر فائز اعليٰ حکام کو جانتا ہوں جو بغیر کسي لالچ اور اجر کے، صرف اور صرف خدا کیلئے کام کر رہے ہيں اور کسي سے کسي قسم کي کوئي توقع نہيں رکھتے ۔میرے علم کے مطابق دنیا ميں ایسي جگہ کم ہونگي کہ جہاں اتني تعداد ميں صالح اور نیک مومنین پائے جاتے ہوںکہ جتنے ہمارے ملک ميں موجود ہيں ۔ميں اس پر خدا کا شکرگزار ہوں۔البتہ کچھ عیب و نقائص بھي پائے جاتے ہيں اور اسلامي نظام کیلئے چھوٹے عیوب بھي مضر ہيں کیونکہ یہ نظام پر عوامي اعتماد ميں کمي لاتے ہيں اوردشمن انھیں بڑھا چڑھا کے پیش کرتا ہے اور اس کي خواہش ہے کہ ان بیماریوں کو معاشرے اور حکومتي عہدیداروں ميں پھیلائے ۔ گزشتہ سالوں ميں استعمار کا ایران ميں نفوذ پیدا کرنے اور سازشوں کاایک بڑا مقصد یہ تھا کہ نیک ا ور صالح افراد کو فاسد کرے ، وہ جو مال ودولت کو اہمیت نہيں دیتے انھیں اس کا پجاري بنائے اور جو لوگ شھوتوں کي آلودگي سے دور ہيں، اُنھيں آلودہ کرے ، ہم آج بھي ان چیزوں کا مشاہدہ کرر ہے ہيںلہذا ہميں اپنے آپ کوان سے محفوظ رکھنا چاہئے۔
ولي امر مسلمین حضرت آیت اللہ سید علي خامنہ اي کے خطابات سے اقتباس
متعلقہ تحریریں:
جج، عدلیہ کا محور
عدلیہ کا فلسفہ وجودی
اسلامی جمہوریت
ان حوادث سے انقلاب کمزور نہیں ہو سکتا
سانحہ ہفتم تیر (اٹھائیس جون 1981 ) تاریخ انقلاب میں ناقابل فراموش واقعہ
دشمنوں کا ادھورا خواب
لوگوں کے ایمان، سانحہ ہفتم تیر کے وقت بھی اسلامی جمہوریہ ایران کے مستحکم رہنے کا راز
تہران میڈیکل یونیورسٹی آف ایران
شریف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی
شہدائے سانحہ ہفتم تیر (اٹھائيس جون 1981 ) اسلامی جمہوریہ ایران کی اساس اور اسلامی اقدار کی حاکمیت کی