• صارفین کی تعداد :
  • 4091
  • 1/4/2011
  • تاريخ :

حقیقت عصمت

بسم الله الرحمن الرحیم

ھر صاحب عقل پر یہ بات واضح ھے کہ نبی چونکہ پیغامات الٰھی کولوگوں تک پهونچاتا ھے اور ان کے سامنے دینی احکامات پیش کرتا ھے لہٰذا اس کی باتوں پراس وقت یقین کیا جا سکتا ھے جب وہ صادق هو اور بھول چوک اور خطا وغلطی سے پاک هو، اور ھر طرح کی معصیت وگناہ سے دور هو ،نیز خدا کی مکمل طریقہ سے اطاعت کرتا هو،تاکہ (یقینی اور قطعی طور پر ) ان تمام چیزوں سے پاک ومنزہ هو جو اس کے اقوال، اعمال اور دیگر امور میں باعثِ شک بنتے هوں۔

چنانچہ اسی چیز کو علماء علم کلام”عصمت “ کہتے ھیں۔

اس بنا پر عصمت کے معنی ایک ایسی داخلی طاقت ھے جو نبی کو ترکِ طاعت، فعل معصیت اور بری باتوں سے روکتی ھے۔

انبیاء  (ع) کی عمومی زندگی کی معرفت کے بعد انسان اس نتیجہ پر پهونچ جاتا ھے کہ نبی کے لئے صاحب عصمت هونا ضروری ھے اور ھمارے لئے انبیاء کی عصمت پر یقین رکھنا واجب ھے، چنانچہ شیعہ حضرات انبیاء (ع) کی عصمت کی ضرورت پر زیادہ اصرار کرتے ھیں اور اسلامی فرقوں میں صرف ھمارا واحد مذھب ھے جو انبیاء (ع) کی عصمت کا قائل ھے چونکہ دوسرے اسلامی فرقے انبیاء (ع) کی عصمت مطلقہ کو ضروری نھیں سمجھتے، جبکہ فرقہٴ معتزلہ اگرچہ انبیاء (ع) کو گناہِ کبیرہ سے معصوم مانتا ھے لیکن ان کے لئے گناہ صغیرہ کو جائز جانتا ھے البتہ ایسے گناہِ صغیرہ جو فقط ثواب کو کم کرتے ھیں لیکن باعث عذاب نھیں هوتے۔

اور چونکہ مسئلہ واضح ھے لہٰذا اس میں زیادہ گفتگو اور دلیل کی کوئی ضرورت نھیں کیونکہ خود انسان کا وجدان اور دل اس بات کی گواھی دیتا ھے کہ وہ نبی جو خطا وغلطی کرتا هو اور معصیت وگناہ کا مرتکب هوتا هو اس صورت میں کوئی بھی انسان اس کی اطاعت وپیروی نھیں کرے گا اور نہ ھی اس کے قول وفعل او رامر ونھی کو قبول کرے گا۔

 

بشکریہ صادقین ڈاٹ کام


متعلقہ تحریریں :

اصالتِ روح

اصالتِ روح (حصّہ دوّم)

اصالتِ روح (حصّہ سوّم)

اصالتِ روح (حصّہ چهارم)

اصالتِ روح (حصّہ پنجم)

اصالتِ روح (حصّہ ششم)

اصالتِ روح (حصّہ هفتم)

اصالتِ روح (حصّہ هشتم)

اصالتِ روح (حصّہ نهم)

اصالتِ روح (حصّہ دهم)