• صارفین کی تعداد :
  • 3929
  • 6/14/2010
  • تاريخ :

اصالتِ روح (حصّہ هشتم)

بسم الله الرحمن الرحیم

اصالتِ روح (حصّہ چهارم)

اصالتِ روح (حصّہ پنجم)

اصالتِ روح (حصّہ ششم)

اصالتِ روح (حصّہ هفتم)

پیكانالیز كے مشہور و معروف ماہر نفسیات فرائیڈ نے نفسیات كے میدان میں ایك انقلاب برپا كردیا، یہ دانشور اپنے مطالعے، آزمائشوں اور تجربوں كے ذریعہ اس نتیجہ پر پہنچا كہ عصبی بیماریوں كے لیے فیزیولوجی اور تشریح الاعضا كے علما كی صرف دماغ اور اس كے پیچ و خم پر تحقیق ناكافی ہے۔ اس نے تحت الشعور كے اس گوشے كا انكشاف كیا جس كی آگاہی و اطلاع شعور پر تحقیق ناكافی ہے۔ اس نے تحت الشعور كے اس گوشے كا انكشاف كیا جس كی آگاہی و اطلاع شعور كی سطح سے بہت گہری ہے۔ وہ اس نتیجہ پر پہنچا كہ پریشانیوں كی وجہ سے نفسیاتی اسباب و علل كے ظہور كی بذات خود ایك حقیقت ہے اور یہی حقیقت بیماریوں كا باعث ہوتی ہے۔ بیماریوں كا علاج نفسیاتی طریقہٴ علاج اور الجھنوں كو دور كرنے كے ذریعہ ہونا چاہیے اس سے جسمانی بیماری ختم ہوسكتی ہے۔

نفسیاتی اور كچھ جسمی بیماریوں كا علاج نفسیاتی طریقہٴ علاج كے ذریعہ كوئی نیا تجربہ نہیں ہے۔محمد بن زكریاء رازی اور ابن سینا نے بھی علمی طور پر اس طریقے كو اپنایا ہے، البتہ آج اس فن كا دائرہ بہت وسیع ہوچكا ہے اور اس كی بعض صورتیں واقعا حیران كن ہونے ہونے كے ساتھ ساتھ اصالت حیات اور خاص طور سے انسان میں اصالتِ روح كی تائید كرتی ہیں لیكن فرائیڈازم میں بڑا انكشاف شعور و لاشعور اور اس كے گرہ درگرہ سلسلوں كا ہے۔ پرانے زمانے میں ملاقی ونسیاتی بیماریوں كو فقط "عادت "كے زاویے سے دیكھا جاتا تھا اورعادت اس حالت كا نام ہے جو كسی عمل كو بار بار انجام دینے سے پیدا ہوتی ہے۔ پرانے زمانے میں كہا جاتا تھا كہ عادت: مادی حالت كی روانی جیسی حالت ہے۔ اس كی مثال ہے:

كسی ٹہنی كو دھرا كریں پھر چھوڑدیں، تھوڑی دیر بعد وہ دوبارہ سیدھی ہوجائے گی دوبارہ اگر اسے دوہرا كیا جائے تو دوسری بار كم سیدھی ہوتی ہے اور اگر اس عمل كو كئی بار دہرایا جائے تو دُھری ہوجائے گی۔ كہا جاتا تھا كہ عادت بھی كسی ٹہنی یا كاغذ كو دھرانے كے مانند ہے۔ اسی طرح سے كوئی بھی عمل تكرار كے نتیجہ میں دماغ پر اپنا اثر و رسوخ جماتا ہے، جیسے ہم اخلاقی برائی یا اچھائی كا نام دیتے ہیں۔ لیكن تحت الشعور یا " شعور باطن"اور "الجھنوں" كے نظریات یہ ثابت كرتے ہیں كہ اخلاقی ظواہر دوسرے ظواہر سے علیحدہ اور مستقل ہیں۔

فرائیڈ اپنے نظریہ كے ذریعے حیاتی قوت كی اصالت یا مادہ پر حیات كی حكومت كو ثابت نہیں كرنا چاہتا تھا، بلكہ علمی تحقیقات جس كو وہ اہل بھی تھا۔ اس میں اہلیت و شائیستگی كا ثبوت دیا۔ لیكن جب فلسفی استنتاج و استنباط میں وارد ہوتا ہے، تو وہ شایستگی اور لیاقت كھو بیٹھتا ہے نامطلوب فرضیہ اور نظریات قائم كرتا چلاجاتا ہے۔ بہر حال اس دانشور كی علمی تحقیقات كی قدر و قیمت جو ہے وہ مسلم ہے۔

فرائیڈ كے بعض شاگردوں میں " یونگ"جیسوں نے نفسیاتی نظریات كے سلسلے میں فلسفی استنتاج و استنباط كے طرز میں اپنے استاد كی مكمل طور سے مخالفت كی اور اس نظریہ میں كافی حد تك حیاتی قوت كی اصالت كو نمایاں كیا اور وہ ان معنوں میں كہ فرائیڈ كے نظریہ كو ماوراء الطبیعت كا حامل پہلو قرار دیا۔

مؤلف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری

مترجم: خادم حسین

(تنظیم و پیشكش گروہ ترجمہ سایٹ صادقین)